سیرِ تکمیلِ بشر

فکر میں رفعت و تطہیر ہے انسا ںکا عیار
اِس بلندی پہ رہا کرتا ہے طالع بیدار

غفلت اِک سانس کی ممکن نہیں اِس منزل پر
آنکھ جھپکے تو بدل جاتے ہیں سب لیل و نہار

دلِ بیدار سے مقصود خود آگاہی ہے
فکر کچھ اپنی، کچھ اَوروں کی سعادت دَرکار

فکرِ مربوط و مسلسل سے ہے دانش کا فروغ
سیرِ تکمیلِ بشر کی ہے یہی راہگزار

کون کس کام کے لائق ہے، یہ ہے فکرِ بصیر
بے سبب نسبتِ ناحق سے ہے باطل نادار

یہ مراتِب کا تفاوت یہ مَدارِج میں تمیز
پھر حقائق پہ نظر، یہ ہے بصیر ت کا شِعار

نور و ظلمت میں ہے فرق ایک نہیں ظِلّ و حُردر
زندہ و مُردہ کو یکساں نہ سمجھنا زِنہار

متوازن ہے اگر قوتِ احساس کہیں
کس طرح ایک رہیں شامِ خزاں صبحِ بہار

ہو نہیں سکتا کسی حال میں مُسلم مجرم
متقین اور ہیں کچھ اور ہے بزم فُجّار

عِلم اور جہل کو ہم وزن سمجھنے والے
آبِ شیریں بھی انھیں تلخ ہے، یہ ہیں بیمار

حجّتِ عقل ہے اِک کامل و اعلیٰ کا وجود
وہ ہے موجود تو پُرداغ ہے ناقص کا جَوار

کس بلندی سے پکارا گیا انسان کہ پھر
زیب دیتا نہیں پستی کی طرف اُس کا فرار

رفعتِ کوہِ سَراندیپ صدائے آدمؑ
بامِ توبہ ہے جہاں قربِ الٰہی کا مَدار

ہے اِسی خط پہ کہیں جُودی و کشتی کا مقام
کفر ڈوبا ہے، بنے نوحؑ یقیں کا معیار

منجنیق اور براہیم کی تفصیل بنے
ابنِ عمراں سرِ طُور اور بنِ مریم سرِ دَار

پھر اُسی سطح پہ معراجِ نبیِؐ خاتم
ہے دَنیٰ اور فَتَدلّٰی سے حقیقت بے کنار

اور اُسی سطح سے پالانِ شُتر کا منبر
اِس بلندی سے وِلایت کا لیا ہے اقرار

عید ہے عیدِ نبیؐ دوشِ پیمبرؐ پہ حسینؑ
کس اُفق پر ہوا دستورِ شفاعت تیّار

آدمؑ و نوحؑ و براہیمؑ و کلیمؑ و عیسیٰؑ
سب میں شبیرؑ نظر آئے محمدؐ آثار

مرضیٔ رب سے زمانے میں اَب و جد کی طرح
قصرِ توحیدِ الٰہی کے اکیلے معمار

خطِّ امکان و وُجوب اور قیامِ شبیرؑ
قابَ قوسین کی منزل پہ شہادت کا قرار

اور آغوش میں شبیرؑ کے کوئی مولُود
جس کے بازو ہیں امامت کے فرائض کا وقار

آئے شبیرؑ ملا ذوقِ ادب کو سجدہ
آئے عبّاسؑ ملی دستِ وفا کو تلوار

جانِ احمدؐ کا محافظ ہے شبابِ حیدرؑ
ایک سجدے کی حفاظت میں کھنچی ہے تلوار

ہاں اِسی حفظِ امانت کا ہے اِک رَمز عَلم
طُور و جُودی کی طرح حق کی بلندی کا وقار

راہ گُم کَردہ کسی دَور میں مُڑ کر دیکھے
نظر آئے وہ عَلم راہ نمائے ابرار

وہ عَلم جس پہ بھروسہ ہے خدا والوں کا
وہ عَلمدار کہ ہاتھوں پہ خدائی ہے نثار

جس کا سایہ نہیں اُس نور کا سایہ وہ عَلم
وہ علمدار کہ زہراؑ کی دُعا آخرِ کار

سیرِ تکمیلِ بشر پر ہے نگاہِ ابلیس
پھر بھی یہ دُھن ہے کہ افضل ہے ابھی خاک سے نار

کیا بُھلائے کسی کامل کو گزرتا ہوا وقت
اِس بلندی پہ پہنچتا نہیں ماضی کا غبار

حشر تک جانا ہے اُس ایک عَلم کے ہمراہ
وقت کی قید میں آتے نہیں جس کے انوار

ان خزانوں کا رشیدؔ آئے گا کوئی وارث
خضرؑ کی طرح بناتے رہو گرتی دیوار

Scroll to Top