سلام

ہے یہی وقت اِن کا دامن تھام لے
گرنے والے اب علیؑ کا نام لے

مرحبوں کے سر پہ ہے تیغِ علیؑ
اپنا بدلہ صبح لے یا شام لے

ہے مئے حبِّ علیؑ کچھ تُند و تیز
حُرؑ بنے جو مستیوں سے کام لے

وہ علیؑ کی نیند ہے ہجرت کی رات
ہر نَفَس پر رب سے جو انعام لے

ہے ابوذرؓ سے وِلا تو اپنے سر
حق پرستی کا بھی اِک الزام لے

کب ہے مشکل حق و باطل میں تمیز
کوئی کروٹ تو دلِ ناکام لے

بے مودّت آدمی معذور ہے
جس طرح جو معنیِ اسلام لے

آخر اِس چوکھٹ پہ آنا ہے تجھے
جانے والے یہ بھی اِک پیغام لے

دفن اصغرؑ ہو گئے، شہؑ نے کہا
میرے بچے اب یہاں آرام لے

عصرِ عاشور آئی آوازِ رسولؐ
فاطمہؑ بازوئے زینبؑ تھام لے

قید خانے میں کوئی بچی ہے دفن
اِک امانت اور ملکِ شام لے

اے ترابیؔ مفت ہے آبِ حیات
موت کے ہاتھوں سے کوئی جام لے



سلام

دل و دماغ پہ اِس طرح چھا گئے عبّاسؑ
وفا کا نام لیا تھا کہ آگئے عبّاسؑ

علیؑ کے لال ہیں، جَد اِن کے ہیں ابوطالبؑ
قیامِ حق کو وراثت میں پاگئے عبّاسؑ

چَراغ حق کا جلایا ہے تُند جھونکوں میں
دیارِ کفر کی شمعیں بُجھا گئے عبّاسؑ

فرات پر وہ لڑائی مثالِ بدر و حنین
جلالِ حق کا نمونہ دِکھا گئے عبّاسؑ

ہر ایک ماتمیِ شہؑ کے دل میں در آکر
علیؑ کے نام کا سکّہ بٹھا گئے عبّاسؑ

علیؑ و حمزہؑ و جعفرؑ بھی تھے علمبردار
پھر اُن کے بعد علَم بن کے آگئے عبّاسؑ

سُنا تھا دعوتِ حق کو ذرا توجّہ سے
تو اُس کو ساتھ لیا، حُرؑ بنا گئے عبّاسؑ

لبِ فرات جبیں رکھ کے شہؑ کے قدمو ںپر
غمِ حسینؑ کی رونق بڑھا گئے عبّاسؑ

نہ لاش خیمہ میں جائے نہ یاں سکینہؑ آئے
یہ التجا شہِ دِیںؑ کو سُنا گئے عبّاسؑ

رشیدؔ صبر پہ نازاں ہے آج ہر مظلوم
نشانِ نخوتِ ظالم مٹا گئے عبّاسؑ



سلام

اپنی خاموشی میں سب ماضی کے دفتر کھول دے
رازِ جبر و صبر اب اے دیدۂ تر کھول دے

در بدر ناحق بھٹکتا ہے مسافر، باز آ
ہاں یہی بابِ علیؑ ہے اب تو بستر کھول دے

سخت حیرت ہے مسلماں آج بھی خائف رہیں
ہر یہودی کا بھرم جب فتحِ خیبر کھول دے

حکمِ رب ہے سب کے دروازے رہیں مسجد میں بند
میرے گھر سے جس کو نسبت ہے وہی در کھول دے

کون کس کے ساتھ آئے گا حضورِ مصطفیٰؐ
آرزو ہے یہ حقیقت صبحِ محشر کھول دے

زندگی میں دوستوں کی ہے وہی تقدیرِ عیش
جس گِرہ کو ناخنِ تدبیرِ حیدرؑ کھول دے

شانِ کرّاری سے پھر کوئی مہم کیوں سر نہ ہو
حق کا پرچم جب علمدارِ پیمبرؐ کھول دے

قبر میں میری کہا مولاؑ نے رضواں سے رشیدؔ
ایک دریچہ خُلد کا تربت کے اندر کھول دے



سلام

جہاں ولی ہے عیاں لا الٰہ الا للہ
نہ کون ہے نہ مکاں لا الٰہ الَّا للہ

سُبک ہیں دونوں جہاں لا الٰہ الَّا للہ
گراں ہے سخت گراں لا الٰہ الَّا للہ

سبھی زمانے کی گردش سے ہوگئے مجبور
مگر امامِ زماںؑ لا الٰہ الَّا للہ

کہا علیؑ نے ”کہاں تک لڑوں؟“ نبیؐ بولے
فقط ہے شرطِ اَماں لا الٰہ الَّا للہ

خدا کی راہ میں کٹتی ہے یوں شبِ ہجرت
نَفَس نَفَس پہ جناں لا الٰہ الَّا للہ

محمدؐ و علیؑ و فاطمہؑ حسینؑ و حسنؑ
کدھر ہے کاہکشاں لا الٰہ الَّا للہ

علیؑ کی تیغ سے پوچھو ہر ایک کی تاریخ
کہا ہے کس نے کہاں لا الٰہ الَّا للہ

گواہ ہے کہ ہر اِک مدّعی نہیں مُسلم
وہ صبحِ قتل اذاں لا الٰہ الَّا للہ

ضعیف باپ نے دیکھی پسر کی یہ حالت
کلیجہ اور سِناں لا الٰہ الَّا للہ

رگیں گلے کی اُدھر کٹ رہی ہیں خنجر سے
اِدھر ہے وردِ زباں لا الٰہ الَّا للہ

جناب عابدِ بیمارؑ اور بھرا دربار
گلے میں طوقِ گراں لا الٰہ الَّا للہ

رشیدؔ امامِ زمانہؑ کی معرفت کے بغیر
فقط ہے وہم و گماں لا الٰہ الَّا للہ


سلام

کسی کے وقت کا تابع ہوں جب تک میں ہوں محفل میں
پُر از خاکِ شفا ہے شیشۂ ساعت مِرے دل میں

دُعائوں نے تمھاری حیدرِ کرّارؑ کو بھیجا
وہ جب آئے تو جانِ زار ٹھہری قلبِ بسمل میں

مسلسل نزع میں آواز آتی تھی، نہ گھبرانا
علیؑ آتے ہیں مشکل میں، علیؑ آتے ہیں مشکل میں

مِرا جینا مِرا مرنا غمِ شہؑ کی حفاظت ہے
جو وقفہ بھی عطا ہو صرف ہے اِس ایک حاصل میں

یہ مقدادؓ و ابوذرؓ میثمؓ و عمارؓ و سلماںؓ ہیں
کہ جن کے نام سے وحشت ہے اب تک بزمِ باطل میں

طلب ہے شرط، جاری ہے صلوٰۃ ان کی زکوٰۃ ان کی
سلیماںؑ ہو جو آجائے انگوٹھی دستِ سائل میں

علیؑ کی دوستی ہر صاحبِ ایماں کی فطرت ہے
علیؑ مولودِ کعبہ ہیں، ملیں گے کعبۂ دل میں

علیؑ کے نقشِ پا نے آج تک جنبش نہیں پائی
وہ مرحب ہو کہ ابنِ عبدِ ود، آئے مقابل میں

حیاتِ نو عطا کی ہے مجھے اُن کے اشارے نے
رشیدؔ اس نے ڈبوئے کتنے بیڑے چشمِ ساحل میں



سلام

کربلا نے یوں کِیا ہے اہتمامِ اہلِ بیتؑ
درد کی موجوں پہ پہنچا ہے پیامِ اہلِ بیتؑ

پڑھ نہیں سکتے ہیں گھبرائے ہُوئے، کامل دُرود
دل لرزتے ہیں ابھی لینے میں نامِ اہلِ بیتؑ

کربلا میں پنجتنؑ کے سارے نائب جمع تھے
یعنی حق پر تھے سبھی، یہ تھا قیامِ اہلِ بیتؑ

آیتوں کا کس طرح مفہوم بدلے گا کوئی
حشر تک قرآں رہے گا ہم کلامِ اہلِ بیتؑ

بڑھ کے وہ خیبر کا دن تھا بڑھ کے وہ ہجرت کی رات
ہم نے یوں دیکھے ہیں اب تک صبح و شام اہلِ بیتؑ

سب کو مرگِ جاہلیت سے بچانے کے لیے
ہر زمانے میں ہے لازم اِک امامِ اہلِ بیتؑ

یہ خدا والوں کا گھر ہے، یہ نبوّت کا ہے گھر
اب کسی سے کیا رُکے ذکرِ دوامِ اہلِ بیتؑ

فاطمہؑ بیٹی نبیؐ کی معنیِ کوثر بنی
یوں مشیّت نے کِیا ہے انتظامِ اہلِ بیتؑ



سلام

جب کبھی دل نے کسی غم میں کہا ہائے حسینؑ
دُور تک عالمِ غربت میں نظر آئے حسینؑ

رات اندھیری ہے تو منزل سے بھٹکنا کیسا
اپنی آنکھوں میں ہے جب نقشِ کفِ پائے حسینؑ

بندگی ایک تو بندوں کی حقیقت بھی ہے ایک
پھر جو منشائے محمدؐ ہے وہ منشائے حسینؑ

کربلا آج بھی باقی ہے محب ہیں بے خوف
یہی امروز تو ہے مقصدِ فردائے حسینؑ

آئے خیمے کی طرف، پھر گئے، پھر آئے حسینؑ
ماں کا دل جانتا ہے گود میں کیا لائے حسینؑ

دی ہے قاسمؑ نے صدا آگیا سرورؑ کو جلال
لے کے عبّاسؑ کو مقتل میں چلے آئے حسینؑ

کاش تم دیکھتے، بچّے سے ہُوا ہے جو سلوک
روزِ عاشور یہ تھی ایک تمنّائے حسینؑ

امتحانِ اثرِ سجدہ ہے شہؑ کو منظور
ہے زمیں پر نگہِ زلزلہ پیمائے حسینؑ

آنکھیں سرورؑ کی کھلیں خطبے کا آغاز ہوا
ہے یہ زینبؑ کا جہاد اور بہ ایمائے حسینؑ

حشر تک ہم نے بھی جینے کی قسم کھائی ہے
نزع میں دیکھ لیا ہے رُخِ زیبائے حسینؑ

ہر قدم دشمنِ تازہ سے اُلجھنا ہے رشیدؔ
ہر نَفَس دیکھتے ہیں زورِ تولّائے حسینؑ



سلام

چراغِ طُور جلایا ہے روشنی یوں ہے
علیؑ نے جلوہ دِکھایا ہے روشنی یوں ہے

مِری نظر میں کمی تھی مگر غمِ شہؑ سے
اِک اشک آنکھ میں آیا ہے روشنی یوں ہے

تہِ زمیں بھی اُجالا ہے شہؑ کے ماتم کا
یہ داغ دل نے کمایا ہے روشنی یوں ہے

جبیں پہ نامِ علیؑ لکھ دیا تھا بچپن میں
وہ نقش اب اُبھر آیا ہے روشنی یوں ہے

اندھیرا نزع میں رخصت ہوا، زباں پہ مِری
کسی کا نام جو آیا ہے روشنی یوں ہے

مِری حیات شبِ غم سہی، مودّت ہے
وہ نور فکر پہ چھایا ہے روشنی یوں ہے

وفا کے نور سے روشن ہوئی شبِ عاشور
چراغ شہؑ نے بجھایا ہے روشنی یوں ہے

سکینہ بی بیؑ نے پہچانا سب کو زنداں میں
سرِ حسینؑ جو آیا ہے روشنی یوں ہے

چَراغ شامِ غریباں میں کس طرح جلتے
کسی کے گھر کو جلایا ہے روشنی یوں ہے

رشیدؔ اب نہ ڈرائے گی کوئی تاریکی
علیؑ نے پاس بلایا ہے روشنی یوں ہے



سلام

بزم میں صاحبِ آیاتِ جَلی آتے ہیں
ہاں نواسوں کو لیے ساتھ نبیؐ آتے ہیں

نزع کا وقت ہے کچھ ہوش رہے دیکھ تو لوں
ملک الموت ٹھہر جا کہ علیؑ آتے ہیں

بہرِ تعظیم تڑپنے لگی عبّاسؑ کی نعش
غُل ہوا جب کہ حسینؑ ابنِ علیؑ آتے ہیں

دل یہی ڈھونڈ رہا ہے کوئی حُرؑ آجائے
یوں تو ذکرِ غمِ سرورؑ میں سبھی آتے ہیں

کبھی سورج پلٹ آیا تو میں کیا شبہ کروں
میری تقدیر پلٹ آئی علیؑ آتے ہیں

جب نبیؐ دیتے ہیں آواز ابوطالبؑ کو
سب لرزتے ہیں کہ اب حق کے ولی آتے ہیں

بولے شہؑ قاسمؑ و عبّاسؑ و علی اکبرؑ سے
آئو سب مل کے چلیں حُرِ جریؑ آتے ہیں

شان دیکھو تو سواری کی ذرا اُٹھ کے ربابؑ
تیر گردن پہ ہے اور لب پہ ہنسی، آتے ہیں

تھی سکینہؑ کی صدا ”قافلے والو ٹھہرو“
بابا اصغرؑ کو لیے ساتھ ابھی آتے ہیں

لفظ کی وسعتِ مفہوم کو پھر دیکھ رشیدؔ
دل میں جب صاحبِ اَسرارِ خفی آتے ہیں


سلام

اس علم سے ہم سبھوں کی شان ہے
ابن حیدر یہ تیرا احسان ہے

کفر کی تعریف اب آسان ہے
حب علی کی دوستی ایمان ہے

بسترِ احمد پہ اور ہجرت کی رات
یا علی ہیں یا خدا کی شان ہے

دوش احمد پر نہیں ہیں مرتضی
حدِ امکاں پر کوئی انسان ہے

دل میں اکبر کے شہادت کی خوشی
ماں کے دل میں بیاہ کا ارمان ہے

آئی ہیں بنت علی دربار میں
آج بھی خلقِ خدا انجان ہے

آگیا یثرب میں لٹ کر قافلہ
ہائے کیا شام  ِوطن ویران ہے

باپ سے بچہ لپٹ کے مر گیا
اپنے دل میں آج تک پیکان ہے

آج تک آتی ہے آواز ِرسول
یہ میری عترت ہے یہ قرآن ہے

نزع میں مولیٰ جو آئے ہیں رشید
زندگی پر موت کا احسان ہے



سلام

اس علم سے ہم سبھوں کی شان ہے
ابن حیدر یہ تیرا احسان ہے

کفر کی تعریف اب آسان ہے
حب علی کی دوستی ایمان ہے

بسترِ احمد پہ اور ہجرت کی رات
یا علی ہیں یا خدا کی شان ہے

دوش احمد پر نہیں ہیں مرتضی
حدِ امکاں پر کوئی انسان ہے

دل میں اکبر کے شہادت کی خوشی
ماں کے دل میں بیاہ کا ارمان ہے

آئی ہیں بنت علی دربار میں
آج بھی خلقِ خدا انجان ہے

آگیا یثرب میں لٹ کر قافلہ
ہائے کیا شام ِوطن ویران ہے

باپ سے بچہ لپٹ کے مر گیا
اپنے دل میں آج تک پیکان ہے

آج تک آتی ہے آواز ِرسول
یہ میری عترت ہے یہ قرآن ہے

نزع میں مولیٰ جو آئے ہیں رشید
زندگی پر موت کا احسان ہے

 

 

Scroll to Top