سفرِ زیست کو لازم ہے ہر اِک گام چراغ
سفرِ زیست کو لازم ہے ہر اِک گام چراغ
جیسے جلتے ہوں سرِ رہ گزرِ عام، چراغ
کیا سَحر تک کوئی جلنے کی تمنّا کرتا
بجھتے دیکھے ہیں اِسی دل نے سرِ شام چراغ
منتظر آنکھ میں خود ہے کوئی تارا روشن
کیوں جلاتا ہے فلک شام سے گمنام چراغ
جاگنے والے محبّت میں یہی جانتے ہیں
ہجر کو کہتے ہیں شب، داغ کا ہے نام چراغ
شوق سے آپ جلائیں مگر اِتنا سُن لیں
زرد ہوجاتا ہے خود صبح کے ہنگام چراغ
کارواں جاتا ہے، لے صبح ہوئی چونک رشیدؔ
اب کہیں اور جلا جا کے سرِ شام چراغ