سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں

ضياء الحسن موسوی

علّامہ رشید ترابی کی موت ایک ایسے باب کا خاتمہ ہے جس کا آغاز وہ خود تھے اور انجام بھی وہی، وہ متعدد صفات د امتیازات و خصوصیات کے علاوہ علوم کی متعدد شاخوں اور کئی زبانوں سے مناسبت رکھتے تھے اسی لیے انھیں علّامہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں بالعموم بڑے لوگ کسی ایک خصوصیت کے لیے شہرت پاتے ہیں اور ان کی بہت سی اہم خصوصیات پردۂ الخفا میں رہ جاتی ہیں، مگر علّامہ رشید ترابی کی وجہ شہرت میں ان کی اکثر خصوصیات نمایاں ہیں۔ یعنی خطابت۔ وہ علوم وافکارِ جدیدہ سے براہِ راست واقف تھے۔ وہ مذہب کے ابدی حقائق کی گہری بصیرت کے مالک تھے۔ وہ علوم اسلامیہ کی بلندیوں سے مانوس تھے۔ ہزار ہا کتابیں ان کی نظر میں تھیں۔ ان کا حافظہ اتنا غیر معمولی تھا کہ وہ قرآن مجید، نہج البلاغہ ، کلام انیسؔ اور کلام اقبالؔ کے مفہوم شناس ”حافظ“ کہے جا سکتے ہیں۔ اور یہ سب خزانے انھوں نے اپنی خطابت میں سمو لیے اور اس خطابت کی دولت کو اتنی سخاوت سے لٹایا کہ حاتم کی سخاوت بھی ماند پڑگئی۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ بقول باب المدينة العلم دولت خرچ کرنے سے کم ہوتی ہے اور علم تقسیم کرنے سے زیادہ ہوتا ہے اور یہی اُن کا عمل بھی تھا۔ اُنھوں نے اپنی دانشوری اور آگاہی کو بارش کی طرح عام کیا اور اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ دولتِ دنیا کو انھوں نے جمع کرنے کے قابل نہ سمجھا مگر وہ بارش کی طرح ان کے قدموں پر برستی رہی۔

      علّامہ رشید ترابی کی خطابت فقط زور روانی اور ولولہ انگیزی کی خطابت نہ تھی۔ وہ علم آموز اور فکر آمیز خطابت تھی اور یہ ان کا کمال تھا کہ انھوں نے لاکھوں سامعین کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔ اُن کو اپنی فکر اور مقصد کی طرف بلند ہونے کی تربیت دی اور پھر ایسے مضامین اور علمی نکات ان کو سمجھائے جو فقط درس گاہوں کی اصلی تعلیم کے نصاب کی سطح کے ہوتے ہیں اور پھر سامعین کو اس پُر مغز گفتگو کا اتنا والا وشیدا بنا دیا کہ وہ دیوانہ وار اس کی تلاش میں گھوما کریں۔ عام خطیب سامعین کی سطح پر آکر اپنا مقصد واضح کرتے ہیں مگر علّامہ رشید ترابی نے ہمیشہ سامعین کو تربیتِ علمی سے فکر و فہم کی سطح بلند کرنے کی دعوت دی اور یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے بر صغیر کے تقریبا پچاس لاکھ مسلمانوں کو اپنی مجالس کے ذریعے علم و عرفان سے مالا مال کر دیا۔ ان کا مذاق اتنا بلند کر دیا کہ وہ سطحی تقاریر سے اب کبھی مطمئن نہ ہوں گے۔ علّامہ رشید ترابی نے عہدِ جدید کے علوم اور انسانوں کو مذہب کی کڑی سے مربوط رکھا ۔ انھوں نے مذہب کو زبر دستی علوم جدیدہ پر منطبق کرنے کے بجائے عہدِ جدید کے گرویدہ انسانوں کو یہ سمجھایا کہ علم و فکر دریاؤں کے پانی کی طرح آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اب ان کو مسخر کر کے فلاحِ انسانیت کے لیے کسی طرح استعمال کیا جا سے یہ بات ہمیں مذہبِ حق سے معلوم ہوتی ہے ۔ اور اگر ہم مذہب سے یہ بات نہ سیکھیں تویہ دریا اپنی طغیانی سے ہمارے عمران کو تباہ بھی کرسکتے ہیں۔

      علّامہ رشید ترابی نے عہد جدید کے تمام ذرائع ابلاغ و مواصلات مثلاً لاؤڈ اسپیکر، ٹیپ ریکارڈر ، ٹیلی فون، ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ کا سوچا سمجھا استعمال کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عالمگیر تحریکِ تعلیم و تدریسِ اطفال و نو جوان و بالغان کے ایک عظیم منصوبے پر عمل کر رہے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ایک عظیم قربانی یہ دی کہ وہ سیاست کے اسٹیج سے جہاں وہ اپنی ایک ممتاز جگہ بنا چکے تھے، پلٹ آئے۔ اُس کو بھول گئے اور اپنی ساری توجہات انھوں نے منبر و مجلس تک محدود کر لیں ۔ وہ استقلال پاکستان سے قبل اسٹیٹس مسلم لیگ اور اتحاد المسلمین کے صفِ اوّل کے قائدین میں تھے اور پاکستان میں ان کے لیے سیاست و حکومت و اقتدار کے کئی راستے کھلے ہوئے تھے مگر اُنھوں نے یہ دیکھا کہ اُن کا مشن اور مقصد زندگی ان راستوں پر چلنے سے پورا نہیں ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں سیاسی جماعتوں کو مقبولیت اور عدم ) مقبولیت کی وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر پاکستان میں اس وقت ان کو کوئی ایسی جماعت نظر نہ آئی جس کا کوئی پروگرام ہو اور اُس کی تکمیل کے لیے وہ جمہوری ذرائع سے کوشاں ہوا یا کوئی مشقت اُٹھانا چاہتی ہو۔ زیادہ تر لوگوں کے پیشِ نظر حکومت مقصد تھی، خدمت کا وسیلہ نہ تھی۔ ان حالات میں جبکہ مختلف جہات سے عہدے پیش ہو رہے تھے اور ایوانوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے علّامہ رشید ترابی نے اپنے سیاسی ماضی کویوں فراموش کر دیا جیسے کبھی اس سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو اور مقصد تبلیغ اسلام اور نشرِ حق و صداقت میں ہمہ وقت مصروف رہے اُس کے باوجود انھوں نے ایک اچھا روزنامہ” المنتظر“ نکالا اور اپنی سرپرستی میں اسکو پروان چڑھانے کی کوشش کی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ اس روزنامے نے ان کو چیلنج کیا کہ اگر وہ خود آگے بڑھ کے اُس کی راست ذمّے داریاں نہ قبول کریں تو وہ بند ہو جائے گا۔ بہت سخت مرحلہ تھا اگر وہ صحافت سے راست وابستگی اختیار کر لیتے تو پھر مطالعۂ علمی و خطابت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بہت کم وقت ملتا۔ یہاں پھر انھوں نے ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور روزنامہ المنتظر بند کر نا گوارہ کر لیا، مگر جو فرض نشرِ حسینیت کا اُنھوں نے اپنے ذمّے لیا تھا اُس کو ترک نہ کیا۔ میں علّامہ رشید ترابی کو ۱۹۴۰ء سے جانتا ہوں جب میں لکھنؤ سے حیدر آباد دکن منتقل ہوا تھا اور حضور نظام کے حکم سے محکمۂ امور مذہبی میں ملازم ہوا تھا۔ میں نے حیدر آباد کے علاوہ بمبئی میں بھی ان کی بہت سی مجالس سنیں۔ ان کی سیاسی اور اجتماعی مصروفیات کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ نواب بہادر یار جنگ اور علّامہ رشید ترابی کے ساتھ مذہبی اجتماعات میں خدمت کا بھی موقع ملا اور ان حضرات کی جادو بیانی سے لطف اندوز ہونے کا بھی۔

      ۱۹۴۵ء میں میری ہی گزارش پر علّامہ رشید ترابی آگرہ اور لکھنؤ تقاریر کے لیے تشریف لے گئےتھے۔ کراچی میں مجھے اُن کے روزنامہ” المنتظر“ کے نیوز ایڈیٹر ہونے کا بھی شرف حاصل رہا ہے اور جمہوریتِ ترکی کی نمائندگی کے ساتھ کئی ماہ میں نے اُن کے حکم سے المنتظر کے لیے ادبی ادارت بھی کی۔ میرا اُن سے دوستی کا بہت قریبی ربط بھی رہا اور تعلقات میں خاندانی روابط بھی شامل رہے۔ مجھے اُن سے بعض معاملات میں مخالفت اور شدید مخالفت کا بھی تجربہ ہے اور سرد مہری کے تعلقات کا بھی۔ اس لحاظ سے مجھے تھوڑا بہت حق ہے کہ میں اُن پر قلم اٹھاؤں اور اگر خدا نے چاہا تو میں اس حق کو پورا کروں گا۔ ان مختصر سی سطور میں جب کہ ابھی اُن کی موت کا صدمہ تازہ ہے اور میرے اپنے فرائضِ منصبی شب وروز کی مصروفیت کے طالب ہیں، اپنے افکار اور مشاہدات کو جمع کرنا مشکل ہے۔

      علّامہ رشید ترابی کی موت ایسا سانحہ ہے جس پر دوست تو کُجا اُن کے دشمن بھی آبدیدہ ہیں۔ وہ اچھے دوست ہی نہ تھے ایک شریف دشمن تھے۔ اور میرا خیال ہے کہ انسان کو پہچاننے کے لیے دوستوں سے زیادہ اُس کا دشمنوں سے سلوک دیکھنا چاہیے۔ جب کوئی شہرت کے آسمان پر ستارے سے آفتاب بنتا ہے تو اُس سے حسد اور دشمنی کرنے والے بھی ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کو طرزِ عمل کی شکایت بھی ہوتی ہے۔ اسلام نے ہمیں دوستی اور دشمنی دونوں کے آداب سکھائے ہیں۔ قرآن مجید نے دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کا حکم دیا ہے اور یہی وہ مسلک ہے جس کے علّامہ رشید ترابی مبلّغ تھے۔ اللہ نے اُن کی عظیم مساعی کو بار آور کیا۔ اُن کو لائق اور سعادت مند اولادیں عطا کیں جن میں جناب ہادی ترابی صاحب، مولانا عقیل ترابی مدظلہ اور عزیزم نصیر ترابی صاحب سے مجھے بڑا اُنس ہے۔ علّامہ رشید ترابی مرحوم کے بھائی مرحوم مظہر علی خاں صاحب سے بھی میں نے استفادہ کیا، جو انگریزی کے عظیم اُستاد اور اُردو ادب کے رسیا تھے۔ کیایہ تعلقات ذاتی حرمان و نقصان کے لیے کافی نہیں، اُس پر مزید علمی مذہبی نقصان ہے۔ ایک دورتھا جس کے علّامہ رشید ترابی بانی تھے اور وہ اُس کو خود ہی اپنے ساتھ ختم کر گئے۔ ایک بستی اور بہت بڑی بستی تھی جو اُن کے بعد ویرانہ اور صحرا میں بدل گئی ہے۔ آج محفلِ خراسان، حسینیۂ ایرانیان، نشتر پارک اور خالقدینا ہال ہر ایسی عمارت جہاں سے ان کی صدا بلند ہوتی تھی آنسوؤں کی محرک بن گئی ہے۔ اُن کی صدا صدہا مجالس اور تقاریر ہزاروں گھروں میں محفوظ ہیں۔ یہ بھی ان کی ایک خدمت ہے مگر وہ کہاں ہیں وہ علّامہ رشید ترابی جو راتوں کو دیر تک علمی گفتگو کرتے تھے، ادبی لطائف پرہنستے تھے۔ اصرار کر کے کھلاتے پلاتے اور خوش ہوتے تھے، اچانک گھر پر آجاتے اور کوئی تحفہ عطا کر کے چلے جاتے، جو عالم بھی تھے ادیب بھی، شاعر بھی تھے، خطیب بھی، سیاستدان بھی اور سیاست سے دور بھی، جو دوست تھے تو دوستی نباہنا جانتے تھے اور مخالفوں سے مخالفت بھی دوستی میں شامل سمجھتے تھے۔

       جادوگر ایک پر اپنا عمل آزماتا ہے ۔ علّامہ رشید ترابی کے حلقۂ سحر البیان میں افراد بھی تھے اور لاکھوں کے مجمعے بھی، وہ سننے والوں کے سامنے نہ ہوتے مگر معلوم ہوتا کہ مجمعے کو گیند کی طرح جس طرف چاہیں پھینک دیں، چاہیں تو اپنی مٹھی میں رکھیں، وہ شخص نہ رہا، وہ جادو ختم ہو گیا، مگر وہ مقصد باقی ہے جس کے لیے انھوں نے اپنی حیات صرف کر دی۔

اُن سے سلام کے ایک مقطع پر یہ گفتگو ختم ہو تو اچھا ہے  ؎

اے ترابیؔ مفت ہے آبِ حیات

موت کے ہاتھوں سے کوئی جام لے

 اس سلام کا مطلع تھا  ؎

ہے یہی وقت اُن کا دامن تھام لے

گرنے والے اب علیؑ کا نام لے

Scroll to Top