زندهٔ جاويد خطيب

آغا شورشؔ کا شمیری

( شاعر، ادیب، صحافی، خطیب اور ایڈیٹر ”چٹان“ لاہور )

کوئی دس سال اُدھر کا ذکر ہے، علّامہ رشید ترابیؔ لاہور آ چکے تھے اور کئی ایک مجالس سے خطاب کرنا تھا۔ سیّد مظفر علی شمسیؔ ادارۂ تحفظِ حقوقِ شیعہ کی طرف سے آپ کے اعزاز میں ایک اجلاس کر رہے تھے۔ انہیں اصرار تھا کہ میں اس تقریب میں علّامہ صاحب کا خیر مقدم کروں۔ نہ جانے یہ خیال انہیں کیونکر سوجھا، میں علّامہ صاحب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ بس سن رکھا تھا کہ وہ بے مثال خطیب اور لا جواب ذاکر ہیں۔ ان کے سامنے کسی کا چراغ مشکل ہی سے جلتا ہے۔ میرانیسؔ نظم کے شہوار تھے اور رشید ترابیؔ نثر کے میر انیسؔ ہیں ۔ میں نے ہامی بھرلی۔ اِدھر اجلاس میں ابھی ایک روز باقی تھا۔ میں تذبذب میں تھا، کہوں تو کیا کہوں؟ محض تعریف کر دینا تو کوئی بات نہیں۔ کوئی چیز رسماً کہی جائے تو حُسن سے خالی اور معنی سے مبّرا ہوتی ہے۔

      ماسٹر تاج الدین انصاری بزرگانِ احرار کی آخری یادگار تھے ۔ اُنھوں نے علّامہ صاحب کی بہت سی تقریریں اور کئی ایک مجلسیں سنی تھیں ۔ وہ اچانک میرے پاس آئے اور دریافت کیا۔

      ”کہ تم رشید ترابیؔ کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہو، میں نے عرض کیا … جی ہاں! کہنے لگے، کبھی اُن سے ملے ہو؟ انہیں دیکھا یا سنا ہے؟ میں نے تینوں صورتوں سے انکار کیا، کہنے لگے۔

      ”میرا خیال بھی یہی تھا، میں اسی لیے آیا ہوں کہ اپنے مضمون کی تیاری کرلو ۔ سوچ کر بولنا اور اپنے اسلوب کی سج دھج سے بولنا۔ رشید ترابیؔ بیان کا دھنی اور زبان کاغنی ہے ۔ اُس کے ہاں الفاظ و مطالب سحر آگیں وحدت رکھتے ہیں۔ انسان مبہوت ہو جاتا ہے۔ آواز میں رعد کی کڑک ہے اور لہجے میں رنگینی بھی ہے سنگینی بھی اور شیرینی بھی۔ اُس کے سامنے بڑے بڑوں کا پِتا پانی ہو جاتا ہے۔“

      میں نے ماسٹر جی سے کہا … سوال کسی مقابلے یا مناظرے کا نہیں۔ شمسیؔ کو اصرار تھا، میں نے ہامی بھرلی ہے۔ تقریر تو انھیں کرنی ہے۔ مجھے نہیں ۔ میں خیر مقدم میں چند جملے کہہ دوں گا ۔ وہ کیا ہوں گے، اس سلسلے میں تردّو نہیں ؎

عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیّاحی میں

ماسٹر جی چلے گئے تو میں نے ایک لحظہ کے لیے سوچا۔ قدرے غور کیا، ایک دو شگفتہ جملے ذہن میں آگئے ۔ لیکن میں سوچ کو طرح دے گیا۔ یوں کہیے کہ اپنے طور پر مطمئن ہو گیا۔ شام پانچ بجے اجلاس تھا۔ علّامہ کے شیدائی اور فدائی اُن کے لیے آنکھیں بچھا رہے تھے۔ بعض ابتدائی چیزوں کے بعد میں تقریر کے لیے اٹھا تو علّامہ صاحب پر ایک استفہامیہ نگاہ ڈالی۔ ابھی دو جملے ہی بولے تھے کہ مجمع داد پر آ گیا۔ میں نے آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ علّامہ صاحب کھڑے ہوئے تو میرے متعلق نہایت خوبصورت الفاظ کہے ۔ اب جو رشتۂ سخن کھلا اور فلسفۂ شہادت بیان کیا تو مجمع بے خود تھا۔ شیعہ بھی تھے سنّی بھی، سبھی مسحور ہو گئے ۔ کوئی فرقہ وارانہ بول نہ تھا ۔ کوئی اختلافی پہلو نہ تھا۔ کوئی جلی و خفی طنز نہ تھا۔ نہ الفاظ کا خروش نہ آواز کا جوش، الفاظ انگشتری تھے، معانی نگینه، چشمۂ صافی بہہ رہا تھا۔ خوبی یہ تھی کہ ایک لالہ زار تھا جس میں بہت سی روِشیں، اَن گنت شاخیں اور اُن پر کھلے ہوئے رنگا رنگ پھول تھے ۔ لطف یہ کہ ؎

ہر گلے رارنگ وبُوئے دیگر است

کمال یہ تھا کہ سامعین کا ذہن پرسش کے بجائے پرستش کی طرف جارہا تھا۔ استدلال تھا تو بے پناہ، جذبات تھے تو بے کراں۔ انداز یہ تھا کہ وہ ایک کارواں لے کر چلے جارہے ہیں اور ہم اُن کے ساتھ رواں ہیں۔

       خطابت کیا ہے؟ ایک تخلیقی جو ہر جو سامعین کو اِکائی میں بدل دیتا ہے۔ اس کے بعد حسبِ موضوع دماغوں میں یکسانی، دلوں میں طغیانی آنکھوں میں پانی اور قدموں میں روانی آ جاتی ہے ۔ علّامہ رشید ترابی اپنے فن کی اِسی معراج پر تھے۔ اُن کی تقریر لگ بھگ دو گھنٹے رہی لیکن وقت تھا کہ سن سے نکل گیا۔ اُنھیں اُسی رات ایک مجلسِ عزا سے خطاب کرنا تھا لیکن اس سے پہلے فلیٹی ہوٹل میں ایک عشائیہ تھا جس میں تمہیں چالیس افراد مدعو تھے ۔ علّامہ صاحب کچھ دیر مختلف کھانوں کی ارتقائی شکلوں پر گفتگو کرتے رہے۔ اِس سلسلے میں مختلف علاقوں کے ذائقے اور ذوق کا ذکر کیا۔ اور ان کے تفاوت پر روشنی ڈالی۔ ان کی یہ گفتگو انتہائی دل پز یر تھی ۔ بلکہ خود ایک طعام تھی ۔ میں نے بات پلٹنے کے خیال سے تاریخ کے بعض رخنوں کا ذکر کیا۔ آپ نے پہلے تو غالبؔ کا یہ شعر پڑھا ؎

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

پھر فرمایا، تاریخ کی سچائیاں ایک خاص دور کے بعد داغدار کی گئی ہیں۔ اِدھر انسان نے سیاست کی شاہراہ پر تاریخ سے شرارتیں کی ہیں۔ جب ان شرارتوں کو فرماں روایا نہ سر پرستی حاصل ہو تو قلم ہی دشنہ وخنجر ہو جاتے ہیں۔ میرے ایک فقرے کو نوازتے ہوئے کہا۔ ” تمہارا وہ جملہ خوب تھا کہ تاریخ صحیفۂ ربّانی نہیں۔ لوگوں نے احادیث میں قلم لگایا ۔ تاریخ کیوں کر بچ رہتی۔ جن لوگوں کی تلواریں اہل بیتؑ سے انصاف نہ کر سکیں اُن کے قلم کیوں کر انصاف کر سکتے تھے۔“

       مجلسِ عزا کا وقت ہو رہا تھا۔ مجھے ہمراہ لے گئے، کئی ہزار کا مجمع تھا، اور پس پردہ کئی سو عورتیں تھیں ۔ آپ نے کلام پاک کی ایک آیت پڑھی۔ اُس کے تحت حکیمانہ معارف بیان کئے ۔ حضورؐ کا تذکرہ کیا اور ذیل کا مصرع پڑھا  ؎

پھر ان کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

      اس کے بعد کر بلا کا حادثۂ محزنہ بیان کیا۔ فضائل بیان کئے ۔ فضا گوش بر آواز تھی ۔ مصائب کی طرف آئے تو کہرام مچ گیا۔ اُن کی اپنی آواز بھرا گئی ۔ میری پلکیں بھیگ گئیں اور معاًوہ لوگ مجھے یاد آ گئے جو آنسوؤں کے سیل پر اعتراض کرتے لیکن خون کے دھاروں پر مسکراتے ہیں ؎

سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں

جس نے اولاد پیمبرؐ کا تماشا دیکھا!!

علّامہ صاحب دل کے ہاتھوں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ گلہ کیا کہ ہرشخص کے لیے موت ہے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے

      لیکن بعض شخصیتیں وقت سے پہلے چلی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ محاسن کی ایک دنیا اُٹھ جاتی ہے، انسان مرنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور ہم کسی کی موت کو روک نہیں سکتے ۔ اگر قدرت استثنیٰ رکھتی اور ہر دور میں کسی شخص کو اُس کے حُسن کی وجہ سے موت نہ آتی تو ذکرِ اہلِ بیتؑ کی بدولت رشید ترابیؔ نہ مرتے ۔ انھوں نے ربع صدی سے زیادہ عرصہ اہلِ بیتؑ کے فضائل و مصائب بیان کئے ۔ اِس ذکر نے اُنھیں زندۂ جاوید کر دیا اور وہ مر کے بھی زندہ ہیں۔ اُن کا جسم نہیں رہا لیکن اُن کی رُوح باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو نہیں مرنے دیتا جواُس کے محبوبؐ اُن کی اولاد ؊ سے محبت کرتے اور اُن کے ذکر وافکار سے اپنے شب و روز کو زندہ رکھتے ہیں۔ رشید ترابیؔ عمر بھر عشقِ اہلِ بیتؑ میں مستغرق رہے۔ اب وہ چلے گئے لیکن ان کی یاد ہمیشہ رہے گی۔ اپنا قلق یہ ہے کہ خاک سے یہ پوچھنے کا مقدور ہی نہیں کہ ؎

تو نے وہ گنج ہائے گرانما یہ کیا کیے

Scroll to Top