رہے جو شام و سَحر
رہے جو شام و سَحر اُن کے آستاں کو سلام
یہی ہے خُلد، اب آرامِ قلب و جاں کو سلام
دُعائیں دیتی ہوئی بے کَسی بڑھی آگے
کِیا جو برق نے جُھک جُھک کے آشیاں کو سلام
پرائے تنکے تھے آندھی کا اِک بہانہ تھا
گھر اپنا دیکھ لیا، عمرِ رائیگاں کو سلام
کوئی سُنے گا کہاں تک یہ ہوش کی باتیں
مذاقِ عشق بگڑتا ہے، رازداں کو سلام
میں جارہا ہوں نگاہوں میں لے کے جلوۂ دوست
حیاتِ عقل ملی، مرگِ ناگہاں کو سلام
تِرے نثار نشیمن کو پھونکنے والے
مکاں کی قید میں مشکل تھا لامکاں کو سلام
رشیدؔ پائوں کے چھالے بہت ستاتے ہیں
مِری طرف سے کہو میرِ کارواں کو سلام