رہُوں کچھ ایسے خیالات میں جو بدعت ہیں
رہُوں کچھ ایسے خیالات میں جو بدعت ہیں
ہے عِلم سب ہی اشارات میں جو بدعت ہیں
حضور و دیدۂ پرنم ندائے شوق و سلام
اُمور یہ ہیں ملاقات میں جو بدعت ہیں
سوالِ وصل و مکافاتِ ہجر و شکوۂ غیر
یہ سلسلے ہیں مقالات میں جو بدعت ہیں
قدم قدم پہ رہے کچھ خیالِ ماضی و حَال
ہزار باتیں ہیں ہر بات میں جو بدعت ہیں
طویل تجربہ ہَائے گزشتہ کی تاریخ
نہاں ہے چند علامات میں جو بدعت ہیں
بزرگیوں کا بشر کی ہو تذکرہ کیسے
ہیں تذکرے بھی کرامات میں جو بدعت ہیں
دلیلِ کم نظری قِصّۂ جدید و قدیم
پھنسی ہے عقل اُن آفات میں جو بدعت ہیں
بقولِ ناصحِ مشفق یہ عمر کٹتی ہے
تمام اُصولِ مدارات میں جو بدعت ہیں
رشیدؔ ہوگئے احباب عقل میں عاجز
لگائیں حُکم قیاسات میں جو بدعت ہیں