رئیس امروہوی

(شاعر، ادیب و دانشور )

میری زندگی ہمہ تن شاعرانہ رہی ہے، بنابریں مجھے جرأت نہ ہوتی تھی کہ علّامہ رشید ترابی کی مجلسِ خلوت میں بے تکلفانہ شرکت کروں ۔ اہلِ علم وفضل کی خدمت میں حاضری سعادت ہے، لیکن اس سعادت کا حصول ہم جیسے یارانِ قلندر پیشہ کے امکان میں کہاں۔ میں دُور سے انھیں دیکھتا تھا اور اپنی رُوح کے بہت قریب پاتا تھا۔ ذاکر اور خطیب کی حیثیت سے ان کی عظمت آفتاب کی طرح مسلم ہے۔ مرحوم کی اس حیثیت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، نیز بہت کچھ کہا اور لکھا جائے گا، لیکن اُن کی شخصیت کے چند حیرت انگیز پہلو اور بھی تھے۔ ”منبر کا دوسرا نام“ میں عزیز القدرامیر حسین سلّمہٗ نے حضرت علّامہ کی جامع کمالات ہستی کے ان پہلوؤں کو بھی بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ علّامہ ترابی کی ذاکری کے بارے میں کچھ عرض نہیں کروں گا، اس موضوع پر کہنے کے اہل اور حضرات ہیں۔ میں تو اُن کے ذوقِ شعری اور ادبی شعور کا گرویدہ ہوں ۔ وہ چیز جسے شخصیت کا ڈرامائی اظہار کہا جاتا ہے، بہت کم افراد میں پائی جاتی ہے۔ ایسی معرکۃ الآراء شخصیات جس شعبۂ حیات میں قدم رکھتی ہیں، ایک انقلاب بر پا کردیتی ہیں۔ علّامہ رشید ترابی کی رُوح میں ایک طوفان خوابیدہ تھا۔ منبر پراُن کی نشست ، اُن کا خطبہ، اُسلوبِ بیان، پیرایۂ ابلاغ ، خطابت میں بعض استعارے، کنا ئے، تلمیحات، تشبیہات، پھر ادائے مطالب میں اُن کے اشارہ ہائے چشم وابرو، صوت وصدا کا اہتمام بخدا ایسا لگتا تھا کہ ساری کائنات ساکت ہے اور صرف ایک شخص ناطق ہے۔ جیسے کون و مکاں میں صرف ایک آواز گونج رہی ہے اور ہر ذرّے میں سماعت کی حس بیدار ہوگئی ہے :

ہر ذرّے میں سامع ہے بیدار

کس شخص سے ہم سخن ہیں ہم لوگ

یقیناًوہ جیتے جی ایک روایت، ایک کہانی، تاریخ کا جزو اور ہماری معاشرتی زندگی کا ایک جزوِلاینفک بن گئے تھے۔ ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ حضرت علّامہ اسی طرح ہماری رُوحانی اور ذہنی ضرورت کا حصہ ہیں جس طرح مجالسِ عزا، محافلِ میلاد بلکہ مشاعرے اور ادبی مذاکرے۔ اُن کی ذات ہمارا ایک تہذیبی مظہر بھی اور روحانی محرّک بھی تھی۔

Scroll to Top