ذکرِ ستم رَوا ہے یہ صوتِ کرخت تک
ذکرِ ستم رَوا ہے یہ صوتِ کرخت تک
انساں نہ تڑپے، موم ہو اِک سنگِ سخت تک
اب بھی نظر فلک کی ہے مجھ پر جمی ہوئی
میں نذر دے چکا جگرِ لخت لخت تک
اے نازِ خسروانہ بہت ہوچکا غرور
تختہ پہنچ رہا ہے ابھی تیرے تخت تک
یہ ہے جلالِ حُسن یہی خیر و صدق و عدل
ناحق نہ جاسکا تیرے حقدار بخت تک
اِنکارِ سجدہ پر وہ نکالا ہوا رجیم
پھر کیا ہوا کہ خلد میں پہنچا درخت تک؟
حیراں نہ رُوح و تن ہوں کہیں حشر میں رشیدؔ
محدود اب عمل ہو فقط زاد و رَخت تک