دینِ خوش گفتاری کے پیغمبر
جوشؔ ملیح آبادی کا تعزیتی مکتوب
میاں نصیر ترابی، سلامت رہو، ہر چند اِس کرّہ ارض پر ”بفضلہ“ ایک فرد بھی نہیں رہے گا۔ جب کہ تمہارے نازشِ روزگار وعظیم باپ کی موت پر خود میرا گریبان چاک ، اور خود میری آنکھیں نم ناک ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں پھر کس مند سے تم کو صبر کی تلقین کروں۔ ایسے قوّتِ برداشت کو سلب کرنے والے سانحے پر، جب کہ زندگی کی سانس اُکھڑ کر رہ جاتی ہے، صبر کی تلقین کرنا ، شقادت نہیں تو اور ہے کیا ۔؟
اور ، اس بنا پر میں یہ کہوں گا کہ رو، اے میاں نصیر، رو، جی بھر کر رو، رو اور رو،روتے روتے جل تھل بھر دو، ….. اس موت پر زمین بھی رور ہی ہے، آسمان بھی رورہا ہے، میں بھی ، دل تھام کر روؤں تم بھی سر پیٹ کر رو۔
نظر اٹھا کر دیکھو کہ تمہارے باپ پر… جود ینِ خوش گفتاری کے پیغمبر تھے، موت طاری کر کے، لیلائے فصاحت پر بیوگی کا عذاب نازل کر دیا گیا۔ عروسِ بلاغت کی چوڑیاں ٹھنڈی کر دی گئی ہیں۔ شہرِ ابلاغ کو ، پامال کر ڈالا گیا ہے۔ نگارِ حرف و حکایت کی نبضیں ڈبو دی گئی ہیں۔ فضائے سوگ واری سے ”واحُسینا“ کی صدا چھین لی گئی ہے۔ طلاقت کا جنازہ نکال دیا گیا۔ معافی کی چاندنی، گہنا دی گئی ہے۔ الفاظ کی پنکھڑیاں تو ڑ دی گئی ہیں۔ خطابت کی رگوں کا خون جما دیا گیا ہے۔ جادو بیانی کی رگِ جاں تراش دی گئی ہے۔ محراب کی زبان کو کاٹ ڈالا گیا۔ منبر کو گونگا بنادیا گیا ہے اور کھنکتے لہجے کی دھنک کو، توڑ کر رکھ دیا گیا۔
جُوئے خوں، آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہو گئیں
سوگوار جوشؔ
اسلام آباد، یکم جنوری ۱۹۷۴ء قبلِ طلوع