داستاں صبر کی غیروں کو سنائی نہ گئی

داستاں صبر کی غیروں کو سنائی نہ گئی
جُز رسی دردِ خداداد میں پائی نہ گئی

فکرِ آزاد کو پروائے نشیمن کب تک
تہمتِ تنگ دلی مجھ سے اُٹھائی نہ گئی

حرکتِ نفس طلب اور طلب لامحدود
لطفِ ساقی ہے کہ یہ پیاس بجھائی نہ گئی

اے گزرتی ہوئی دُنیا سے لپٹنے والے
کیا گِلہ ہے جو تیری آبلہ پائی نہ گئی

ذائقہ کون بدل دیتا ہے ہر منزل پر
موت کہتے ہیں جسے وہ تو نہ آئی نہ گئی

ایک سجدے میں کِیا کون و مکاں کو اپنا
مرگئے اور تِرے بندوں سے خدائی نہ گئی

حیف اُس طائرِ بے حال کے نغموں پہ رشیدؔ
آشیانہ تو گیا تلخ نوائی نہ گئی

Scroll to Top