خواب اِس طرح پریشاں ہیں اِن ارمانوں کے
خواب اِس طرح پریشاں ہیں اِن ارمانوں کے
راستے جیسے ہوں بستی سے بیابانوں کے
درد اندازۂ درماں سے سِوا ہوتا ہے
ہائے وہ عقل جو نرغے میں ہو نَادانوں کے
حُسن اور عشق کی فطرت ہے ازل سے یکساں
کیف عنوان بدل دیتا ہے افسانوں کے
نااُمیدی کی سَحر کا ہے کو عبرت بنتی
چاک دیکھے ہیں مگر تم نے گریبانوں کے
سرِ شوریدہ، دلِ جاہ طلب، حرصِ حیات
چند یہ نام ہیں ٹُوٹے ہوئے پیمانوں کے
پردۂ رونقِ بازار اُلٹ کر دیکھو
حسرتیں دوڑتی ہیں بھیس میں انسانوں کے
کیوں نہیں دیکھتے کعبے کے نگہبان رشیدؔ
کتنے بگڑے ہوئے تیور ہیں صنم خانوں کے