خطیبِ مشرق
علّامہ سیّد محمد رضی صاحب قبلہ
(مجتہد، مصنّف اور خطیب)
آج میں علّامہ رشید ترابی کو خطیبِ مشرق لکھ رہا ہوں یہ سمجھتے ہوئے کہ ڈاکٹر اقبال میں جو امتیازی صفت شعر سخن کی دنیا میں شاعرِ مشرق ہونے کی حیثیت سے موجود تھیں وہی گوناگوں کیفیات حسنِ بیاں اور میدانِ خطابت میں علّامہ ترابی کی شخصیت کے اندر بھی پائی جاتی تھیں۔ ڈاکٹر اقبال نے شعری ادب کو ایک جدید اور انتہائی کامیاب رُخ دیا تھا تو ترابی صاحب نے بھی طرزِ خطابت کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال دیا تھا جس میں جدید و قدیم علوم کی تمام لطافتیں سمٹ آئی تھیں۔
جہاں تک میں تاریخ شعر و خطابت کا تجزیہ کرسکا ہوں۔ میرے خیال میں یہ بات ایک کلیہ کی حد تک صحیح ہے کہ جو شخص بھی خطیب ہوتا ہے اُسے فطری طور پر شاعری سے دلچسپی لازمی ہوتی ہے۔ چنانچہ علّامہ ترابی کو بھی شاعری سے نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ وہ ایک بلندپایہ شاعر بھی تھے۔ ان کے مزاح میں مشکل پسندی ضرور تھی اور وہ خطابت و شاعری دونوں میں زیادہ تر گہرے مضامین کے لیے دقیق زبان بولا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے طرز ادائیگی میں بلا کا سحر تھا اور اپنی وسعت ِ نظر اور وسعت زبان کے باوجود وہ اپنے سامعین کو چند لمحوں میں اس طرح مسخر کرلیتے تھے کہ ان کے ایک ایک فقرہ پر وہ تڑپ اُٹھتے تھے۔ ان کی تقریروں میں ریسرچ اور علمی تحقیق کے عجیب رُخ ہوتے تھے۔ اُنھوں نے رومیؔ اور اقبالؔ کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انھیں قرآنِ پاک کا بیشتر حصّہ یاد تھا۔ وہ نہج البلاغہ کے تقریباً حافظ تھے۔ وہ انگریزی زبان اور جدید علوم پر پورا عبور رکھتے تھے۔ غرض ان کی شخصیت ایک مثالی شخصیت تھی اور اُنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کی اپنے علم اور اپنی خطابت سے معیاری خدمت انجام دی ہے جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ نمایاں رہے گی۔