خطيبِ اخوّت

مولانا محمد شفیع اوکاڑوی مرحوم

(معروف خطیب، مصنّف، سابق ممبر قومی اسمبلی اور رکن یونیورسٹی گرانٹس کمیشن )

 اتحاد بین المسلمین کے فروغ و استحکام کے حوالے سے علّامہ رشید ترابی مرحوم کی کوششوں اور خدمات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ اس سلسلے میں اُن کا سب سے بڑاعملی اقدام خواُن کا اپنا مشہورِ زمانہ اسلوب خطابت تھا جو اخوّتِ اسلامی اور مسلمانوں کے مابین بھائی چارے کو مضبوط بنانے میں بڑا معاون ثابت ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی مجلسوں میں تقریبا ًسب ہی فرقوں کے لوگ شرکت کرتے اور کبھی کسی کو کوئی شکایت نہ ہوتی ۔ جشن عید میلاد النبیؐ اور ولادت علیؑ کے سلسلے میں ہونے والی تقریبات میں مجھے علّامہ رشید ترابی کے ساتھ شرکت کے مواقع بھی ملے۔ وہ ہمیشہ بڑے تپاک اور محبت سے پیش آئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عملِ صالح کسی بھی عنوان یا کسی بھی سطح سے کیا جائے، وہ اپنی ایک اہمیت اور قدرو قیمت رکھتا ہے اور جلد یا بدیر اس کے مثبت نتائج ضرور سامنے آتے ہیں۔

      ماہِ محرّم الحرام کا تقدّس اپنی جگہ مسلّم ہے، لیکن واقعۂ کربلا کے بعد اس مہینے کی شناخت نواسۂ رسول ﷺ امام عالی مقام حسین ؈ سے وابستہ ہو کر رہ جانا اسلام کی ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے۔ برسوں پہلے اِسی شہر کراچی میں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائی جاتی تھی، اُس اتحاد اتفاق کا جس بیدردی سے خون بہایا گیا، اسے دیکھ کر ہر دردمند مسلمان اور محبِ وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لوگ ابھی اس حدیثِ رسول ﷺ کو بھولے نہیں ہیں کہ وہ افراد ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتے جن کے ہاتھ یا زبان سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچے۔ یہ فرقہ واریت اور مذہبی افراتفری جن مذموم مقاصد اور مخصوص مفادات کے پیش نظر جو لوگ بھی پھیلا رہے ہیں، اب وہ بے نقاب ہو چکے ہیں، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی ذمّے داریاں محسوس کریں۔ کلمہ گومسلمانوں کا تعلق خواہ کسی فرقے اور مسلک سے ہو اُ نھیں آپس میں دست وگریباں ہونا کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ وہ نبیِ آخر ﷺ جسے خدا نے عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، اُس کی اُمّت کو تو مثالی کردار و عمل کا حامل ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہماری اپنی غفلتوں نے ہم سے ہماری شناخت بھی چھین لی ہے۔ میں نے اسی گمشدہ شناخت اور مذہبی ہم آہنگی کو واپس لانے اور کربلا میں امامِ عالی مقامؑ اور اُن کے گھرانے کو پیش آنے والے مصائب سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لیے ڈولی کھاتہ میں محافل اور مجالسِ محرّم کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے جو شبِ عاشورہ ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں رسولؐ اور اہلِ بیت ؊ سے محبت کرنے والے بے شمار عقیدت مند بلا تفریقِ عقیدہ و مسلک شرکت کرتے ہیں۔ یہاں مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں بلکہ خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ہماری ان منظّم محافل کی وجہ سے فقہ جعفریہ کے ساتھ بھی ہماری ذہنی ہم آہنگی اور جذبۂ خیر سگالی میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف مواقعوں پر مجھ سے ملنے والے اہلِ تشیع کے کئی مقتدر علماء نے نہ صرف ہمارے اس جذبۂ ایمانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا بلکہ تحسین و آفرین کے وہ کلمات بھی ادا کیے، جس سے میرے دل . میں ان کا احترام اور بڑھ گیا ہے۔ علّامہ رشید ترابی کے حوالے سے یہاں میں اس واقعہ کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا کہ امامِ پاکؑ سے متعلق شائع ہونے والی میری ایک تصنیف پر حضرت علّامہ رشید ترابی نے ایام محرم کے دوران خالق دینا ہال کی ایک پُر ہجوم تاریخی مجلس میں شاندار تبصرہ کرتے ہوئے ہماری مذکورہ دینی سرگرمیوں پر جو خراجِ تحسین پیش کیا، مجھے ان کے وہ گرانقدر کلمات ہمیشہ یادر ہیں گے جس پر میں اُن کا شکر گزار بھی ہوں۔ آج ہمارے درمیان اُن کا نہ ہونا ایک نہایت دلخراش سانحہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ترابی صاحب جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بہر حال ہم نے اپنے طور پر اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ اتحاد بین ا لمسلمین کی یہ ذمّےداریاں پوری کرنا ہر کلمہ گو مسلمان کے اوّلین فرائض میں شامل ہیں ہمارے ان اقدامات سے مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان جذ بہ خیر سگالی اور اسلامی اخوت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ محرم الحرام کی طرح جشنِ عید میلادالنبیؐ کے جلسے اور جلوسوں میں بھی اسلامی بھائی چارے کے یہی دل خوش کن منظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اللہ اتحاد و اتفاق کی ان برکتوں کو شیطان کے شر اور منافقین کی نظرِ بد سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

(مولانا مرحوم سے 83-1982ء میں کئے گئے ایک خصوصی انٹرویو سے اقتباس، جس کی دیگر تفصیل کتاب ” میری یاد گار ملاقاتیں“ میں موجود ہے۔ مؤلّف )

Scroll to Top