حوّائے عَالمِ عقلی

عقل کی عید ہے تسلسلِ فکر
لذّتِ مستقل ہے جس کا ذِکر

ہر نَفَس انکشاف اِک لذّت
دل کو رفعِ حجاب سے فرحت

جب تجلّی کرے حقیقتِ شے
پھر تو ہر انعکاس لذّت ہے

ربِّ زِدنی سے مُدّعا یہ مِلا
کچھ تو سمجھیں حقیقتِ اشیاء

طولِ ہر لفظ میں معانی کو
لذّتِ عقل و آگہی سمجھو

پتّے پتّے میں ہیں ہزاروں رَاز
ذرّہ ذرّہ ہے مہر کا دَم ساز

ایک ظاہر کے سیکڑوں باطن
پردہ اُٹھنے کی دیر ہے لیکن

ہے رسائی حواس کی جس جا
ہے وہی حدِّ ظاہرِ اشیاء

عقل رفعِ حجاب کی خواہاں
جلوہ الہام کا یہیں سے عیاں

ایک اشراق اور یکایک نور
یعنی ہر غیب کے لیے ہے حضور

گویا ہر دَم عمل یہ فطرت کا
کوئی پنہاں تھا، آشکار ہُوا

اور یہیں سے کُھلے مدارجِ عِلم
سب پہ ظاہر ہوئے معارجِ عِلم

ارتقا ہر قدم پہ لذّت ہے
علمِ تازہ بڑی مسرّت ہے

یعنی کوئی جو تھا حواس سے دُور
بن گیا اِس طرح نگاہ کا نور

رازِ کونین خود ہے نفسِ بشر
سرِّ غَیبت برائے عقل و نظر

نفس عامل ہے جسم ہے معمول
فیضِ کُل نفس جسم ارضِ قبول

زندگی سے یہ آشکارا ہے
غیب کا ہر نَفَس سہارا ہے

اب ہے ایمان غیب پر لازم
سب کی ہستی اِسی سے ہے جازم

کوئی منکر ہو اُس کا د ل ہے مُصر
غیب سے دُور زندگی ہے مُضر

لذّتِ عقل کا یہ ہے مقصود
ہر نَفَس پر ہو ربطِ غیب و شہود

ساری دنیا کو غیب کی ہے تلاش
ہے یہی انتظار کچھ ہو فَاش

جو خدا ناشناس بنتا ہے
خود پریشاں ہے، رازِ کُل کیا ہے

شکل و صورت میں مختلف ہے نمود
اور ماہیتوں کے سب یہ حدود

اصل اِن کی مگر ہے ایک وجود
جو کبھی غیب ہے کبھی ہے شہود

ربطِ اشیاء کا ایک ہے قانون
مدّعا ایک، مختلف مضمون

اِس ثَرا سے وہاں ثُریّا تک
اور اِدھر پھر سَما سے تابہ سَمک

اِک تصرف ہے ایک ہی ملکوت
جس کے تابع ہے عالمِ ناسوت

اِس تسلسل کا ہو اگر اِدراک
دل پہ کُھل جائیں معنیٔ لولاک

کیوں رہے کائنات بے مقصد
ربطِ اشیا سے مل رہی ہے سند

ایک ہی حُکم سب پہ جاری ہے
ایک ہی فکر دل پہ طاری ہے

یہ ہم آہنگیٔ زمان و مکاں
ربط ہر شے میں ہے عیاں کہ نہاں

یہ اندھیرا ہے یہ سویرا ہے
رحمتِ کُل نے سب کو گھیرا ہے

ہے یہی وحدت و دوامِ نظام
یعنی رحمانیت ہے لطفِ عام

ہے یہ احساسِ لطف و فیضِ کرم
اِک تقاضائے شُکرِ ربِّ نعم

بندگی کا ہُوا یہیں آغاز
غیب سے متّصل ہے عقلِ نیاز

اور یہی ہے سپردگی کا مقام
یعنی تسلیم کا تصورِ عام

شانِ تسلیم مرضیٔ محبوب
دخل اپنا جہاں بنے معیوب

اُس کی مرضی سے نیک و بد کی شناخت
اُس کا منشا ہر ایک حد کی شناخت

غیب سے متّصل ہیں کچھ بندے
جسمِ عالَم میں دل ہیں کچھ بندے

ہے یہی دل تو وحی کی منزل
امرِ رب عبد سے جہاں شامل

کچھ اشارے مقطّعات بنے
جو مفصّل تھے مُحکمات بنے

دورِ تنزیل اِس طرح گزرا
حق کا فرمان سب کا سب آیا

دَورِ تدوین میں نصوصِ نبیؐ
شرح پاکر بہم ہوئے ہیں سبھی

دَور یہ جب کمال پر آیا
اِذن پھر اجتہاد نے پایا

یعنی بنیاد نَص سے ہو محکوم
منکشف ہو اِرادۂ معصوم

اجتہاد اپنا انتظار بنا
یعنی اب ہے زمانۂ اِجرا

یعنی اب غیب ہے قریبِ شہود
یعنی وہ پیکرِ سلام و دُرود

مطلعٔ فجر سے قریب ہے وہ
طائعِ روشن نصیب ہے وہ

دم بہ دم ہے نزولِ روح و مَلک
چشمِ بیدار اب ہے سُوئے فلک

درِ اقدس پہ سب سوالی ہیں
دامن اِن سب کے آج خالی ہیں

آگئے آگئے کی ہو پھر دُھوم
کچھ تو ہو مطمئن دلِ مظلوم

پھر محمدؐ کی شان ہو مطلق
ذھق الباطل است و جاء الحق

دَورِ اجرا میں کیا ہے قال و قیل
سرِّ تنزیل ہے یہی تاویل

وقتِ تعبیر حجّتِ زہراؑ
دورِ اظہارِ قدرتِ زہراؑ

جیسے ہے متّصل دُعا و قبول
اثرِ آہ و ضبط و صبرِ بتولؑ

مدّعا جس کا ہے ظہورِ امامؑ
مقصدِ حق کا ہے یہی اتمام

مرضیٔ حق بصیرتِ احمدؐ
فاطمہؐ کے سُکوت کا مقصد

انتظارِ ظہورِ امرِ اِلٰہ
حاصلِ لا اِلٰہ اِلَّا اللہ

یعنی جب قوتیں ہوں لامحدود
اور ہٹ جائیں سب حدود و قیود

حق و باطل کا پھر دِکھادے فرق
ایک آواز غرب سے تَا شرق

عرش سے فرش ہر گھڑی ہر آن
سَیر میں متّصل زمان و مکان

چُوم کر حق کے آستانوں کو
خود اُگل دے زمیں خزانوں کو

لوگ سمجھیں، ہے کیا چلن باطل
حق کا پہنے نہ پیرہن باطل

صاحبِ امر کو مقامِ امر
دے رہا ہے فقط بتولؑ کا صبر

فاطمہؑ صورتِ اَتّمِ کمال
پردۂ صبرِ حق میں حق کا جَلال

فاطمہؑ عالمِ جَلی و خفی
یعنی حوّائے عَالمِ عقلی

لے کے جانا ہے حشر تک سب کو
ساتھ رکھنا ہے مرضیٔ رَب کو

ختم جس جا ہو سیرِ جنّ و بشر
روزِ محشر حضوریٔ دَاور

عقلِ زہراؑ ہے، گھر رہے مظلوم
پئے مظلوم جذبِ دل معلوم

ہر زمانے میں اِتنا جذب رہے
قلبِ مومن میں اِن کی قبر بنے

فوجِ حق کو یہ راہ دکھلائیں
یہ عَلم بن کے حشر تک جائیں

فاطمہؑ کا یہ فیصلہ سُن لو
خَلق میں اہلِ درد کو چُن لو

ساتھ جانا ہے اُن کو محشر تک
پھر یہ لے جائیں ہم کو کوثر تک

پھر مقامِ شفاعتِ زہراؑ
ہر نبیؐ و ولی کا عہد بنا

اِس شفاعت کی حشر میں رُوداد
مقصدِ مبداء و مفادِ معاد

شجرِ نورِ حق نبیؐ و علیؑ
فاطمہؐ رمزِ کوکبِ دُرّی

فاطمہؑ مُدّعا نبوت کا
فاطمہؑ سلسلہ ہدایت کا

فاطمہؐ ھَل اتیٰ کی شانِ نزول
فاطمہؐ روح و اصلِ نسلِ رسولؐ

فاطمہؑ جان و اُمّ اَبیھا کی
فاطمہؑ جس میں حق کی بیباکی

فاطمہؑ آیتِ جلیٔ خدا
فاطمہؑ مطلقاً ولیٔ خدا

فاطمہؑ یومِ دین کا اِتمام
فاطمہؐ صبحِ بندگی کی شام

اس حقیقت کو کوئی کیا جَانے
کَنزِ مخفی کو کون پہچانے

دِلِ نا واقفِ قضا و قدر
جس پہ روشن نہیں ہے خیر و شر

بے خبر بَداء کی حقیقت سے
ناشناسا رہِ مشیّت سے

شُبہ جس کو وجودِ حجّت میں
بے یقینی ہے جس کو رَجعت میں

عقل کی جس جگہ نمود نہ ہو
عدلِ حق کا جہاں وجود نہ ہو

جو نہ جانے خموشیٔ حق کو
جو نہ سمجھے کمالِ مطلق کو

جو نہ جانے کہ خاتمہ کیا ہے
کیا خبر اُس کو فاطمہؑ کیا ہے

Scroll to Top