حق آگاہی کی بستی میں عجب نظم و نسق پایا
حق آگاہی کی بستی میں عجب نظم و نسق پایا
حفاظت حق کی جس نے کی اُسی کو جاں بحق پایا
جہاں لذّت نظر کی تھی وہیں آنکھوں میں کانٹے تھے
چمن سے ایک دن ہٹنا تو ہے، اچھا سبق پایا
دیا ہے حکم سجدے کا نہ چاہا یہ کہ سجدہ ہو
اِسی پیکار کو اصحابِ دانش نے اَدق پایا
کسی کاہوں میں دیوانہ گواہی دوستوں نے دی
لحد میں مونسِ تنہائی میں نے یہ وَرَق پایا
زمانہ سرخیٔ عنواں سے اب تک محوِ حیرت ہے
شہیدوں کے لہو نے بڑھ کے یوں اوجِ شفق پایا
تمہارے نام سے گلشن بنے ورنہ رہِ حق میں
قدم رکھا تو ہر میداں کو سب نے لق و دق پایا
رشیدؔ آسانیوں سے ہر مصیبت کٹ ہی جاتی ہے
جہاں بھی زندگی میں انطباق و اَلفلق پایا