جو بہار آکے نکل گئی نہ وہ مَے رہی نہ سُبو رہا
جو بہار آکے نکل گئی نہ وہ مَے رہی نہ سُبو رہا
جو یہ دل کی بات بدل گئی نہ وہ میں رہا نہ وہ تُو رہا
نگہِ ہوس پہ یہ کُھل گیا کہ ہے دشمنی میں بھی فائدہ
جو غرض کا دوست بنا کیا وہ غرض کے ساتھ عُدو رہا
غمِ بیکسی تو محیط ہے جو زمیں پہ ہے وہ فلک پہ ہے
تری یاد اِسی سے تو رہ گئی یہ جو کچھ شفق میں لہو رہا
جو نہاں تھا کَل وہ ہے اب عیاں جو ہے آج راز وہ کَل کُھلے
مگر اِک اجل ہے چھپی ہوئی یہی ایک سرِّ مگو رہا
دلِ ما و من غمِ ما و من سَرِ ما و من پئے ماومن
یہی دل کا غم یہی سَر میں دُھن نہ وہ حق رہا نہ وہ ہُورہا
تھی قدم قدم پہ مزاحمت مگر ایک رُخ پہ حیات تھی
نہ کسی کی عقل میں آسکا غمِ دوست میں جو نُمو رہا
وہی سَر ہے سنگ طلب یہاں، درِ غیر پر جو نہ جُھک سکا
جو رہِ وفا سے نہ ہٹ سکا وہی پائوں آبلہ جُو رہا
تیری بزمِ ناز میں ہر نَفَس تھی رشیدؔ کی یہی زندگی
کبھی یادِ قلب و سناں رہی کبھی ذکرِ تیغ وگُلو رہا