جوشِ اثر کو دیکھیے غیب پہ اعتماد کے

جوشِ اثر کو دیکھیے غیب پہ اعتماد کے
باغ پَھلے یقین کے پھول کھلے مراد کے

نیند میں اِک دلیل ہے غیب سے اتّصال کی
خواب سے سلسلے بندھے نیک و بدِ معاد کے

اُف رِی زمانہ سازیاں جُزوِ حیات بن گئیں
کتنی خطائوں کا جَواز نام سے اجتہاد کے

دَور وہ کوئی ہو کہیں سب کو گلہ یہی رہا
ناز نہ کیوں اُٹھاسکے ہم کسی کم سواد کے

عقل کی ضد ہے عشق میں علم کا رَد ہے کشف سے
قلب و نظر کا حشر دیکھ عکس میں اِس فساد کے

قتلِ حسینؑ کے لیے اب بھی ہے رَے کی گفتگو
آج بھی ہیں بچھے ہوئے دام بنِ زیاد کے

جس کا رُخِ حیات صرف ایک ہی سمت پر رہے
اُس کے ادب کو دیکھیے عِلم سے اعتقاد کے

جنگ کی روح دیکھیے، نام میں کیوں اُلجھ گئے
کتنے جلے دل و دماغ ذکر سے ہی جہاد کے

ہے تِرے ذکر کی عطا ذکرِ رشیدؔ ہے یہاں
سب کو میں یاد رہ گیا صدقے میں تیری یاد کے

Scroll to Top