جوابِ شکوہ
شب جو دل میں خلشِ خارِ غمِ دوش ہوئی
فکرِ فردا سے خرد بڑ ھ کے ہم آغوش ہوئی
طبع کیفِ مئے پندار سے مدہوش ہوئی
بہکی اِس درجہ کہ آداب فراموش ہوئی
یوں تو رہتی تھی شکایت فلکِ پیر سے بھی
جی میں آیا کو کہا مالکِ تقدیر سے بھی
ناگہاں آئی صدا کان میں، قدرت میری
مجھ سے بندہ مِرا کرتا ہے شکایت میری
خیر گھیرے ہے غضب کو مِرے رحمت میری
صاف دل سے ہے یہ شکوہ بھی عبادت میری
آج تیرا یہ عمل مجھ کو بھی محبوب ہوا
غیر سے میری شکایت جو نہ کی خوب ہوا
ہاں مِرے بندے یہ کہہ باعثِ شکوہ ہم ہیں
بے وفائی کا ہے جس کی یہ فسانہ ہم ہیں
عقل ہی کیا تِری، کیا سمجھے گا تُو کیا ہم ہیں
بحرِ موّاجِ کرم، لطف کا چشمہ ہم ہیں
تو نہ تھا خاکِ عفن سے تجھے موجود کیا
اس پہ دعویٰ یہ کہ تُو نے ہمیں معبود کیا
ہم کو معبود بنایا یہ بڑا کام کِیا
خوب پھر عبد نے معبود کا اِکرام کِیا
بندگی کرنے کی جاعشق کا اقدام کِیا
غیرتِ وامق و فرھاد بنے نام کِیا
بیچ میں، جب کہ قدم عشق کا آیا پھر کیا
بن کے معشوق اگر ہم نے ستایا پھر کیا
سُن مشیّت نہیں اللہ کی پابندِ رسوم
مصلحت سے مِری خوش ہے کوئی، کوئی مغموم
منھ لگایا جو ذرا ہم نے تو اِس پر ہے یہ دُھوم
کیا کٹھن رستہ ہے اُلفت کا تجھے کیا معلوم
شمعِ اُلفت دِل عاشق کو جَلا دے جب ہے
شامِ غم صبحِ مسرّت کو ضیا دے جب ہے
تُو تو کیا مال ہے، غافل تِری ہستی ہے کیا
جنّ و اِنس و مَلک و طَیرو و حوشِ صحرا
بحر و بر، دشت و جبل، شمس و قمر، قطب و سُہا
آب و خاک، آتش و باد، ارض و سما، ظِلّ و ضیا
گر بغاوت پہ یہ سب خلق مہیّا ہوگی
میری قدرت کے خزانے میں کمی کیا ہوگی
آدمؑ و نوحؑ و براہیمؑ و شعیبؑ و دائودؑ
موسیٰؑ و یوسفؑ و یعقوبؑ و خضرؑ، یونسؑ و ہودؑ
ان کی خِلقت کے تھا ہمراہ مصائب کا وُرود
فاقے پہ فاقے کیے لب پہ رہا، یا معبود
یہ تھے کچھ دوست مِرے جن کے یہاں نام لیے
ایسے بھی گزرے ہیں کچھ جن سے بڑے کام لیے
تیری وہ جرأت و قوت کہ تجھے جس پہ ہے ناز
تو سمجھتا ہے اِسی بَل پہ لیے شام وحجاز
لیکن اے بھولنےوالے بشر، اے بندۂ آز
یاد ہے کس کو مدد کے لیے دی تھی آواز
سورۂ فتح میں تھی فتح اِشارا کس کا ؟
جُز ہمارے تِرے دل کو تھا سہارا کس کا؟
دن کو کرتا تھا جو دعوائے خدائی نمرود
پردۂ شب میں رہا کرتا تھا مشغولِ سجود
ظلم گو نفس پر اپنے تھا پئے نام و نمود
نگہِ خَلق میں ہر چند تھا گمراہ و عنود
میری درگاہ میں جب عجز کا تحفہ لایا
اُس نے دنیا کی حکومت میں جو مانگا پایا
ہم نے موسیٰؑ سے جو پوچھا یہ کہ اےخیرِ سلیل
مِری مخلوق میں ہے سب سے سِوا کون ذلیل
بصد آداب یہ کی عرض کہ اے ربِّ جلیل
مِری دنیا کے سہارے مِری ہستی کی کفیل
اِس تِرے بندے سے بڑھ کر کوئی محتاج نہیں
ابنِ عمراں کے سِوا کوئی ذلیل آج نہیں
پانچ وقت آپ پڑھا کرتے تھے ہر روز نماز
وہ بھی لوگوں کے دکھانے کو اِسی پر ہے یہ ناز
اِس اطاعت پہ ہے یہ شور یہ دُھومِ او طنّاز
کیا یہی عاشق و معشوق میں ہیں راز و نیاز
کب عبادت تھی کوئی ریوریا سے خالی
کاش ہوتا تِرا دل غیرِ خدا سے خالی
کیا کرے تُو کہ تجھے درکِ حقیقت ہی نہیں
دل تو ہے سینے میں دل میں مگر اُلفت ہی نہیں
خُوگرِ لذّتِ آلامِ محبت ہی نہیں
اِدّعا عشق کا اور عشق کی ہمّت ہی نہیں
طالبِ دِید ہر اِک محوِ ہوس آتا ہے
ایک موسیٰ ہے کہ دُزدیدہ نَفَس آتا ہے
تُو جو کہتا ہے کہ اب طَور ہیں بے طَور، سہی
لطف و احسان نہیں ہے، ستم و جَور سہی
ہے مشیّت جو ہماری تو یہی دَور سہی
تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
محوِ آرائشِ محفل رہیں محفل والے
ہم سے پردے میں ملیں آکے جو ہیں دل والے
ہم خوشی چاہیں تو کس طرح سے چاہیں تیری
صاف غیروں سے ملی جاتی ہیں راہیں تیری
دل کہیں اور، اِدھر کو ہیں نگاہیں تیری
وقفِ رنج و غمِ دُنیا ہوئیں آہیں تیری
تجھ میں اگلی سی محبّت نہیں وہ بات نہیں
پھر یہ کہتا ہے کہ، پہلی سی مدارات نہیں
دولت و حشمتِ دُنیا ہے مِری دین ضرور
سیکڑوں آکے سلیمانؑ بنے میرے حضور
غنچے غنچے میں زرِ ناب کیا ہے مستور
ذرّہ ذرّہ ہے دُر و لعل کا گنجِ معمور
دوستوں کے لیے لیکن یہی ناداری ہے
ہاں مِرے پہ مرنے کا عوض خواری ہے
اِدّعا گَر ہے مِرے عشق کا معیوب تو بن
داغ کھا داغ پہ، ہم صورتِ ایوبؑ تو بن
کھو کے نورِ نظر اپنا کبھی یعقوبؑ تو بن
ہم بنیں تیرے حبیب آج وہ محبوب تو بن
دل میں احباب مِرے رکھتے ہیں شمشیر مِری
خونِ عاشق میں نظر آتی ہے تصویر مِری
پایا اسلام تو کیا خادمِ بُوذرؓ نہ ہوا
ہاں بلالِ حبشیؓ کے بھی برابر نہ ہوا
غنچہ پُھوٹا تھا کہ مُرجھایا، گُلِ تر نہ ہوا
پَل کے آغوشِ صدف میں بھی تُو گوہر نہ ہوا
دوست ہو کر مِرے دشمن کا شناسا نکلا
میرا بندہ نہیں، تُو نفس کا بندہ نکلا
امتحاں میرا مراتب کی خبر دیتا ہے
ظرف کو دیکھ کے تکلیف سے بھر دیتا ہے
پا کے مرضی مِری کوئی تو پِسر دیتا ہے
میرے دربار میں تحفہ کوئی سَر دیتا ہے
گزرِ منزلِ تسلیم و رضا مشکل ہے
جن کے رتبے ہیں سِوا اُن کو سِوا مشکل ہے
تُو تھا نا چیز تجھے چیز بنایا ہم نے
جسمِ بیجاں کو تِرے جاں میں سجایا ہم نے
باندھ کر تارِ نفس ساز سنایا ہم نے
اپنی قدرت کا تماشہ یہ دِکھایا ہم نے
واقف ایمان سے کر کے تجھے انسان کِیا
تُو سمجھتا ہے کہ معبود پہ احسان کِیا
ذکر بچپن کا نہیں وہ تو ہے خارجِ زِ حساب
کِیا برباد سیہ مستیوں میں عہدِ شباب
آئی جب پیری تو سمجھا اُسے دنیا میں عذاب
تُو کسی حال میں خوش مجھ سے رہا خانہ خراب؟
دن اَلم کے نہ رہے، عیش کی راتیں نہ رہیں
دعویٰ ہی دعویٰ رہا، عشق کی باتیں نہ رہیں
تیری روزی کا ہوا کرتا ہے روز نزول
شُکر میں جس کے یہاں تحفۂ عصیاں ہے وصول
کچھ بتا سکتا ہے کیا عُذر ہے تیرا معقول
ہا ںمگر یہ کہ ہے تُو ظالم و نادان و جہول
ہم ہیں مائل بہ عطا لطف و کرم پر تیار
تُو گناہوں کے کیا کرتا ہے دفتر تیار
بے خودی میں کہا صیاد سے کیوں رازِ چمن
صبر کے ساتھ اُٹھائے نہ گئے نازِ چمن
خود ہی پھندے میں پھنسا زمزمہ پردازِ چمن
اپنے ہاتھوں سے بنا خانہ بر اندازِ چمن
دشمنِ علم و عمل ہو کے جگر سوختہ ہے
اپنے معبود سے کیوں اتنا برافروختہ ہے
مضطرب قلب ہے رہتا نہیں یکسو ہوکر
پھر رہا ہے حرم و دَیر میں آہو ہوکر
روز مستی میں گزرتا ہے لبِ جُو، ہوکر
بِسملِ عشقِ حسینانِ پری رُو ہوکر
والۂ غیر ہے دعوائے محبت دیکھو
عاشقِ شاہدِ توحید کی صورت دیکھو
زندگی خواب بنی اور پریشاں بھی ہوئی
تیری دُنیا صفتِ آئینہ حیراں بھی ہوئی
نَفَسِ باد بنی، عمرِ گریزاں بھی ہوئی
صبحِ پُرسش شبِ غفلت سے نمایاں بھی ہوئی
اب بھی ہشیار ہو! اے وقت کے کھونے والے
دِن چڑھا، چونک، سرِ شام سے سونے والے
میرا منشا ہے یہی اور مِری خواہش ہے یہی
کوئی بندہ مِری درگاہ سے بھاگے نہ کبھی
تجھ کو آنا ہے تو آ، آج ہی آ، بلکہ ابھی
پَردہ اُٹھ جائے مِرا حُکم ہو تیری مرضی
حق کے آنے میں ہے کیا دیر جو باطل جائے
دُور کر دل سے بُتِ آز، خدا مل جائے
میں تیرا شب کے اندھیرے میں نگہبان رہا
روز کے تیرے گناہوں سے بھی انجان رہا
تُو ہی سرگشتہ رہا، غافل و حیران رہا
ایک شب بھی مِرے پاس آکے نہ مہمان رہا
غیر کی بزمِ طرب میں تو رسائی کی ہَوس
خوانِ نعمت سے مِرے زِلہ ربائی کی ہَوس
آج دربار میں مدعو تجھے کرتا ہے کریم
ہدیئے میرے لیے دو لائیو اے زار و سقیم
مضطرب پہلوئے صد چاک میں ہو قلبِ سلیم
اور ہاتھوں پہ رہیں آنسوئوں کے دُرِّ یتیم
بہ نیاز آچو سُوئے بار گہہِ ناز آئی
بگز راز خویش کہ در محفلِ ما باز آئی
جاں سَم آلودِ ہوس اور دلِ غم نوش نہ رکھ
جلوہ بیں عقل کو غفلت سے ہم آغوش نہ رکھ
محملِ دل کو گناہوں سے سیہ پوش نہ رکھ
ربطِ اغیار سے او دوست فراموش نہ رکھ
آج بندے سے یہ اندازِ تکلّم میرا
گویا اِس رنگ سے روشن ہے ترحّم میرا