توحید
فکرِ توحید ہے کمالِ بشر
نظم و ضبط و حیاتِ قلب و نظر
ایک ہی ایک ہُو ہے ذاتِ اَحد
ہے صمد لَم یَلِد وَلَم یُولَد
اُس کی مرضی پہ بندگی توحید
اُس اشارے کی روشنی توحید
حق کی جانب رُخِ حیات رہے
ہم کہیں ہوں اُسی کی بات رہے
سیرِ عقلِ بشر رہِ تشبیہ
عقل چُپ ہے جہاں ہوئی تنزیہہ
یہی توحید ہے کہ وہم نہ ہو
خالقِ فہم اسیرِ فہم نہ ہو
نہیں تخلیقِ عقل وحدتِ حق
اِس ہُویّت پہ ہے شہادتِ حق
عقل خاموش علم بھی خاموش
وحی کا منتظر خودی کا ہوش
اِک ندا تھی اِلٰھُکُم واحد
قلبِ قابل پہ وحی تھی وارد
عقلِ اوّل نے اس کو مان لیا
اِتنی قربت تھی اس کو جان لیا
خلق میں اب یہ حجّتِ خالق
عقلِ کامل ہے وحی سے ناطق
سَروری سب اُسی کو زیبا ہے
یہ بشر ہر صفت میں یکتا ہے
اِس بشر سے خدا کو پہچانا
اصلِ حجّت ہے اِس کا فرمانا
یہی اخلاصِ بندگی توحید
رفعتِ عبد کی یہ ہے تمہید
کلمۂ ذکرِ عبد سے کامل
نامِ رب سے اذاں میں بھی واصل
حق کی توحید پر گواہ بنے
وہ جو اس عبد کی شہادت دے
قربِ حق سے دلیلِ راہ بنے
عبد یہ شرطِ لا اِلہٰ بنے
کس زباں پر ہے آج یہ تلقین
عبد کا ذکر دین کی توہین
جان لے آج جو جہاں ہے عَنید
نہیں توہینِ عبد میں توحید
کہہ رہے ہیں جو ہم کو شخص پرست
خود ہیں مشرک غرورِ جہل میں مست
شرک فی الخلق ہے نہاں درِ دل
شرک فی الجعل زیبِ ہر محفل
کس تکبّر سے کہتا ہے نادان
یہ ہے قرآن یہ مِرا فرمان
یہ خدا نے کہا یہ میں نے کہا
شرک کچھ اور بھی ہے اِس کے سوا
اِتنا اصرار ہے خطا پہ ابھی
کیا جلی ہورہا ہے شرکِ خفی
ہے الٰہ کی نفی کی نفیٔ بشر
ہے کہاں تک فریبِ فکر و نظر
لَااِلٰہ کہ لا محمدؐ ہے
آخر اِس جہل کی کوئی حد ہے
دِل میں شیطان جانتا ہے مگر
سمتِ سجدہ ہے اب بھی خیرِ بشر
شرک کیسا کہ یہ تعّبُد ہے
یہ تشابُہہ نہیں تشہُدّ ہے
ذکر اِس عبد کا عبادت ہے
یہ اذاں ہے یہی اِقامت ہے
اتبّاعِ رسولؐ اُلفتِ حق
وحدتِ فکر سے ہے وحدتِ حق
اِن سے دُوری خدا سے ہے دُوری
ہائے مسلم نُما کی مجبوری
شرکتِ لفظ سے یہ حیراں ہے
کہہ رہا ہے نبیؐ کو انساں ہے
اِنّما حصر ہے خدا ہے ولی
پھر نبیؐ ہے ولی، ولی ہے علیؑ
پھر خدا نور ہے نبیؐ بھی ہے نور
نورِ واحد میں پھر علیؑ بھی ہے نور
رب ہے مومن رسولؐ بھی مومن
کیا یہ مشرک ہیں اب سبھی مومن
دو جُدا امر ہیں، رہے معلوم
شرکتِ لفظ و شرکتِ مفہوم
شرکتِ لفظ بھی نہیں ہے جہاں
کیوں کوئی ناسمجھ رہے حیراں
کیا کہا ہے خدا کو بھی معصوم
شرک کیوں ہو جو ہو نبیؐ معصوم
کیا خدا خود بھی ہے رسولِؐ خدا
شرک کیسے ہے یا رسولؐ اللہ
وحدتِ لفظ و کثرتِ مفہوم
یا علی (جل جلالہٗ) یا علیؑ سے ہے معلوم
حال و ماضی ہو یا حضور و غیاب
شرک کیسے بنے نِدا و خطاب
کیا طلب اور دُعا میں ردّ و کد
آرہی ہے بِاذنہٖ کی سند
پہلے منِ دُونہٖ کو پہچانو
کون ماذُون ہے یہ پھر جانو
اِذن پایا ہوا ہے وہ مختار
مرضیٔ رب سے ہے جو برسرِ کار
بے بَصر کو وہی بصارت دے
ہو جو مبرُوص اُس کو صحت دے
کردے طائر کو خلق مٹّی سے
پھونک دے رُوح، زندگی دے دے
وہ جو چاہے تو کائنات ملے
الغرض موت کو حیات ملے
ایسے بندوں سے مانگنا کیا ہے
رب کی مرضی ہے امرِ مولا ہے
کیوں نہ ہو صادقین سے اُلفت
یہی توحید کی ہے ماہیّت
حق نمائی کی فکر ہے توحید
ایسے بندوں کا ذکر ہے توحید
یہ رہِ حق کے پُر ثمر اشجار
تذکرے ہیں اِنھی کے لیل و نہار
ہے جو مجبور خُبثِ باطن سے
ہٹ گیا ہے سبیلِ مومن سے
یہ سمجھتا نہیں کہ شرک ہے کیا
اُس کو شک ہے ہر ایک شے ہے خدا
ہر ادب شرک، احترام ہے شرک
خاص بندوں کا ذکرِ عام ہے شرک
دلِ بیمار خوش مزاج نہیں
ایسے وَسواس کا علاج نہیں
شرک بیشک ہے جو سِوا سمجھوں
ہاں کسی کو اگر خدا سمجھوں
پھر تو سب شرک ہے دُعا کہ نِدا
اُس طرف دیکھ لوں توشرک ہُوا
یہ تو ہیں بندگانِ حضرتِ حق
جن کو حاصل ہے عزّتِ مطلق
ہے تصرف میں حال و آئندہ
مرضیٔ حق کے یہ نمائندہ
نَقص ہو دُور لطفِ کامل سے
یہ وسیلہ بنیں تو خُلد ملے
اِس وسیلے کی جستجو توحید
اِس شفاعت کی آرزو توحید
حکمِ سجدہ پہ سجدہ ہے توحید
سنگِ اسود کا بوسہ ہے توحید
اُس کے گھر کا طواف ہے توحید
بیتِ حق کا غلاف ہے توحید
رَمی جَمرات ہو، یہ ہے توحید
تم اُچھلتے چلو، یہ ہے توحید
لائے احکامِ حضرتِ دَاور
مرضیٔ رب کا جو بنے مظہر
جس پہ توحید منطبق ہوجائے
حُکم سے حُکم متّفق ہوجائے
یعنی اِک حُکم بھی جو ٹل جائے
دِین میں دُور تک خلل جائے
ذکرِ واحد ہے مظہرِ توحید
قولِ طیّب ہے یہ صراطِ حمید
نہیں توحید، بحثِ ذات و صفات
یہ عقیدہ ہے اصلِ راہِ حیات
جس پہ توحید پاسکے اطلاق
اُس کے قبضے میں اَنفس و آفاق
ایسے بندوں کی زندگی توحید
اُن کا عِلم اُن کی آگہی توحید
شرک سے جب مُباہلہ ہوگا
اِن ہی بندوں کا قافلہ ہوگا
یہ ہیں اَبنا نِسَا یہ اَنفُسنا
سب یہ رشتے ہیں اور اَوادَنیٰ
وہ ہیں راہب یہ اہلِ بیتِ نبیؐ
شرک و توحید میں یہ جنگ ہوئی
اِس طرف عدل ہے طہارت ہے
اُس طرف ظلم ہے نجاست ہے
یہ محمدؐ، یہ دِین کا گلشن
یہ علیؑ فاطمہؑ حسینؑ و حسنؑ
پنجتنؑ یہ مباہلے والے
نام سے اِن کے شرک بھی کانپے
متحد ہو کے آئیں یا تنہا
جنگ اِن سے ہوئی تو شرک ہُوا
یہ اکیلے بھی ہوں تو ہیں غالب
اِن کا آغاز ہیں ابوطالبؑ
شرک و توحید میں جہاں بھی ہو جنگ
نام اِن کا ہے دینِ حق کی اُمنگ
یہ محمدؐ ہیں اوّل و آخر
یہ محمدؐ ہیں باطن و ظاہر
ہے مسلسل یہ ذکر تا کوثر
اِنَّ شَانِئَكَ ہُوَ الْاَبْتَرُ