با کمال مسند آرا
فیض احمد فیض کا مکتوب نصیر ترابی کے نام
عزیزی! تسلیم دُعا۔
علّامہ صاحب مرحوم و مغفور کی علالت کی اطلاع مجھے انڈونیشیا میں ملی تھی، جہاں سے گزشتہ ہفتے لوٹا ہوں، کراچی میں رُکنا نہ ہوسکا، نه بر وقت اُن کی وفات حسرت آیات کی اطلاع پائی، ورنہ تعزیت کے لیے خود حاضر ہوتا ۔ مرحوم کے حلقۂ عقیدت میں شرکت کا افتخار مجھے بھی حاصل تھا اور اُن کے جملہ عقیدت مندوں کی طرح مجھے بھی احساس ہے، اہلِ دل کی محفل میں اب شاید ہی اُن ایسا با کمال مسند آرا ہو سکے، رنج مفارقت کا تو مداوا نہیں لیکن آپ کے لیے اس سے زیادہ وجہ تشفی کیا ہوگی کہ مرحوم کے سوگ میں ایک پورا عالم آپ کے ساتھ شریک ِغم ہے۔ میری جانب سے سب اعزّہ کو بھی تعزیت پہنچادیجیے۔
علّامہ رشید ترابی کے سانحۂ ارتحال پر ان کی آل و اولاد کے نام جتنے خط لکھے گئے۔ اُن سب کو اگر مرتّب کیا جائے تو وہ خود ایک مکمل کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس جریدے کو ضخامت سے بچانے کے لیے ان تمام خطوط سے قطع نظر ہم اپنے دور کی صرف دو بڑی ادبی شخصیات کے خطوط شامل کر رہے ہیں۔