ایک همه گیر شخصیت

منور عباس ایڈووکیٹ مرحوم

( علّامہ ترابی کے رفیقِ خاص)

علّامہ صاحب سے میری ملاقات 1950 ء میں ہوئی، میں اسی زمانے میں ہندوستان سے پاکستان آیا تھا۔ پاکستان آنے سے پہلے میں نے ہندوستان میں ترابی صاحب کے مخصوص فنِ خطابت کی بڑی تعریفیں سنی تھیں۔ راجہ صاحب محمود آباد سے میرے اچھے مراسم تھے۔ اُنھی کے ہاں ایک مرتبہ علّامہ جارچوی صاحب نے ترابی صاحب کا ذکر کیا اور اُن کے طرزِ خطابت کی بے حد تعریف کی۔ علّامہ جارچوی صاحب کی زبانی علّامہ ترابی کی تعریفیں سن کر مجھ میں پاکستان آنے کا شوق پیدا ہوا کہ ویسے بھی علّامہ جار چوی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ضرور جائیں۔ وہاں کراچی میں علّامہ رشید ترابی مجالس پڑھتے ہیں ۔ آپ نے اُنھیں نہیں سنا تو کچھ نہ کیا۔ خیر اُنھی دنوں میرا پاکستان آنا ہو گیا۔ ترابی صاحب اُس زمانے میں اپنا روز نامہ” المنتظر “ نکال رہے تھے اور مجالس محفلِ شاہِ خراسان میں پڑھا کرتے تھے۔

       میں نے کراچی آنے کے بعد پاکستان شیعہ مجلس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ میری ترابی صاحب سے اب تک ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ ترابی صاحب ان دنوں المنتظر سے متعلق مالی پریشانیوں کا شکار تھے اور پرچے کی باقاعدہ اشاعت جاری رکھنا اُن کے لیے دشوار ہو گیا تھا۔ بہر حال ایک دن میں ترابی صاحب کی مجلس سن رہا تھا کہ دورانِ تقریر اچانک ترابی صاحب نے” المنتظر “ کی مالی پریشانیوں کا ذکر چھیڑ دیا اور کہا، اب میں یہ اخبار پاکستان شیعہ مجلس کے حوالے کر رہا ہوں۔ ترابی صاحب کے اس اعلان کے بعد میری اُن سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس کے بعد مجھے گویا ترابی صاحب سے عشق ہو گیا موصوف کو بھی مجھ عقیدت مند سے قلبی لگاؤ پیدا ہو گیا اور اس کے بعد سے مرتے دم تک ساتھ رہا۔ ہم نے مل کر سادات ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ ایک ساتھ پلاٹ لیے اور پھر برابر مکان بنوائے۔ جہاں تک ترابی صاحب سے کسی یادگار ملاقات کا تعلق ہے تو میری اُن سے ہر ملاقات یاد گار ملاقات ہوتی تھی۔ میں ہمیشہ اُن سے کچھ نہ کچھ لے کر ہی اٹھتا تھا۔ میں ترابی صاحب سے اپنی دیرینہ رفاقت کا دعویٰ نہ کرنے کے باوجود یہ کہوں گا کہ میرے اُن سے جو مراسم تھے، شاید اسی کے پیشِ نظر ایک بار علّامہ صاحب کی اہلیہ کو یہ کہنا پڑا کہ بھئی علّامہ مرحوم سے مرزا پویا اور منور صاحب جس قدر نزدیک ہیں اتنے شاید ہم بھی نہیں، بہر حال علّامہ صاحب مجھ سے ہر معاملے میں مشورہ کرتے تھے بلکہ مرحوم نے ایک بار کسی محفل میں کہا تھا کہ بھئی میں کسی معاملے میں ایک رائے قائم کر لیتا ہوں لیکن منور عباس صاحب میری رائے بدل دیتے ہیں۔

      علّامہ مرحوم کی یہ عادت تھی کہ جب بھی کسی سفر پر جاتے میرے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لاتے۔ ان کے دیئے ہوئے تحائف میں مٹّی کا عطر اور افریقہ کے ایک خاص جانور کی ہڈیوں سے بنی ہوئی چھڑی جس کے استعمال پر افریقہ میں لائسنس ہے، بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ترابی صاحب کی زندگی کا ایک یادگار واقعہ جو اُنھوں نے مجھے خود سنایا تھا، مجھے یاد ہے کہ غالباً 1950ء میں جب پاک وہند کے سیاسی معاملات اُلجھے ہوئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان ویزا کی ”رسم“ نہیں تھی تو علّامہ مرحوم کو پاکستان آنے کے لیے پائلٹ کی یونیفارم پہننا پڑی اور وہ ایک ہوا باز کا روپ دھار کر پاکستان پہنچے۔ پاکستان آنے کے بعد مرحوم بز رٹالائن کراچی میں ایک کلرک کے کوارٹر میں رہے۔ اتفاق سے یہ کلرک میرا ایک قریبی عزیز تھا۔ میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان آکر مرحوم نے چند ماہ بڑی پریشانیوں میں گزارے اور ہر دور میں قناعت پسند رہے۔

      ترابی صاحب کے بارے میں یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ انھوں نے اپنی ان گنت مجالس میں سے چند مجالس ایسی بھی پڑھی ہیں، جنھیں بلاشبہ عجیب و غریب کہا جاسکتا ہے۔ اس ضمن کی پہلی مجلس امام بارگاہ مارٹن روڈ کی ہے علّامہ صاحب کوئی عشرہ پڑھ رہے تھے کہ ایک مجلس میں اُس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا اطلاع کئے بغیر علّامہ کی تقریر سننے چلے آئے۔ مجمع چونکہ بہت تھا اس لیے وہ اندر نہ آسکے اور با ہر رہ کر ہی تقریرسُنی تا ہم علّامہ مرحوم نے منبر سے وزیر اعظم کو دیکھ لیا اور اسی وقت اپنے موضوع سے ہٹ کر ملت جعفریہ کے موضوع پر اپنی جامع اور بھر پور تقریر کی کہ وزیراعظم پر اس کا شدید ردِّعمل ہوا اور انہیں کہنا پڑا کہ میں سچ مچ شیعیان علیؑ کے عقیدے سے بے خبر تھا۔ آپ مجھے کچھ لٹر پچر دیجئے تاکہ میں شیعیانِ علیؑ کے بارے میں مزید کچھ جان سکوں۔ علّامہ کی یہ تقریر ایک گھنٹے کی تھی اور اس میں انھوں نے ملتِ جعفریہ کا مکمل تعارف کرادیا تھا۔ علّامہ کی دوسری یاد گار تقریر اُس زمانے میں ہوئی جب ایران کے وزیر اعظم مصدق تھے اور انھوں نے تیل کو قومی ملکیت میں لیا تھا۔ اس پر میں نے اپنے ادارے کی طرف سے مارٹن روڈ میں ایک سیاسی جلسہ کیا تا کہ ایران کے اس اقدام پر اُسے ہدیۂ تحسین پیش کر سکیں جلسے کی صدارت چوہدری خلیق الزّمان کر رہے تھے۔ علّامہ نے اس موقع پر اگر چہ ایک مکمل سیاسی تقریر کی تھی، لیکن بظاہر ان کا موضوع ” طبقات الارض “ تھا۔ علّامہ نے نہ صرف حاضرینِ جلسہ کو بے حد متاثر کیا بلکہ چوہدری خلیق الزّمان کو بھی اپنا خطبۂ صدارت صرف یہ جملہ کہہ کرختم کرنا پڑا کہ علّامہ موصوف کی ایسی مرصع غزل کے بعد میں واقعی کچھ عرض کرنے کے قابل نہیں۔

       علّامہ کی تیسری نا قابلِ فراموش تقریر مارٹن روڈ میں عارف رضا صاحب کے زیر اہتمام ہوئی۔ دورانِ تقریر اتفاق سے سعید الملّت ہندوستان سے تشریف لے آئے۔ علّامہ محترم نے انہیں دیکھا اور اس کے بعد جو” احجزہ“ بیان کیا تو حاضرین بے اختیار واہ واہ کر اٹھے۔ علّامہ نے سعید الملّت کا شجرۂ امام حسنؑ سے مع تاریخ اس تسلسل سے بیان کیا کہ سعید الملّت کو کہنا پڑا کہ اس ترتیب سے شجرہ تو مجھے بھی یاد نہیں تھا۔ علّامہ کی چوتھی یادگار مجلس ذاکر مشہدی صاحب کے ہاں ہونے والے عشرۂ محرّم سے متعلق ہے، اتوار کا دن تھا۔ اُس روز علّامہ مرحوم نے اپنی زندگی کی طویل ترین تقریر کی تھی جس کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے تھا۔ اس سے قبل علّامہ جٹ لینڈ لائنز میں دو گھٹنے کی تقریر بھی کر چکے تھے۔ علّامہ صاحب کی اس ڈھائی گھنٹے کی تقریر کا موضوع کسی رسالے میں شائع ہونے والا ایک مضمون تھا۔ علّامہ نے اس تقریر میں رسولِ کریم ﷺ کے بعد چلنے والے اہلِ سنّت، اہلِ تشیع اور تصوف کے سلسلوں کے نشاندہی کی تھی۔ علّامہ مرحوم کی پانچویں نہ بھولنے والی تقریر نشتر پارک کی ہے۔ جو دس مجلسوں پر مشتمل تھی۔ اس کا موضوع ” ایجوکیشن فلاسفی اِن اسلام تھا اور اس میں علّامہ موصوف نے تعلیم پر لکھنے جانے والی تمام کتابوں کے حوالے دیئے اور اسے اسلام کی کسوٹی پر کس کو حق و ناحق ثابت کیا۔

      علّامہ موصوف کو اپنی تصانیف میں حیدر آباد کے جنگلات جس کی تین جلدیں ہیں اور طبِ معصومینؑ زیادہ عزیز تھیں۔ اس کے علاوہ مالک اشترؓ کے نام مولاعلی ؈ کے خط کا انگریزی ترجمہ جسے ایوب خان نے دس لاکھ کی تعداد میں چھپوا کر تقسیم کرایا تھا، بطورِ خاص پسند تھا۔

      علّامہ مرحوم کی موت کے سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ انہیں اپنی موت کا علم پہلے سے ہو گیا تھا جس کے ثبوت میں اُن کی رضویہ سوسائٹی کی ایک تقریر پیش کی جاسکتی ہے یہ علّامہ مرحوم کی آخری تقریر تھی اور جس کا موضوع ہی یہ تھا کہ اپنی موت کا علم انبیائے اکرام ہی کو نہیں بلکہ علماء کو بھی ہو جاتا ہے۔ علّامہ کی موت سے پہلے جو بیماری لاحق ہوئی، اِس سے اُن کا حافظہ بے حد متاثر ہوا تھا۔ وہ اکثر مجھ سے بعض اشعار کے مصرعے پوچھا کرتے اور کہتے، بھئی اس بارا ہمارا حافظہ بہت متاثر ہوا ہے۔ علاوہ ازیں جس دن علّامہ کا انتقال ہوا، اُس دن اچھے بھلے تھے لیکن اس کے باوجود اُنھوں نے خود اپنے تمام بچوں کو جمع کر کے وصیت کی اور پھر آٹھ گھنٹے بعد دل کے جان لیوا دورے کی زد میں آکر داعیِ اجل کو لبیک کہہ دیا۔

      علّامہ صاحب سے متعلق آج مؤلّفِ کتاب جناب امیر حسین کے سوالات سن کر مجھے مرحوم کا ایک جملہ یاد آرہا ہے کہ منور صاحب میں آپ کو بہت سی اہم اور غیر اہم باتیں اس لیے بتاتا ہوں کہ مر جاؤں تو تمہیں تمام واقعات کا علم رہے۔ علّامہ صاحب کی یہ ایک پرانی عادت تھی کہ وہ جب بھی کہیں آتے جاتے، مجھے ہر موقع پر فون کر کے تفصیلات سے ضرور آگاہ فرماتے ۔

      آج سے پندرہ برس پہلے یادگار چودہ سو سالہ جشنِ مرتضوی کے سلسلے میں ایک عظیم الشان اجلاس کا انعقاد علّامہ مرحوم کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ اجلاس رضویہ کالونی کے میدان میں کئی روز جاری رہا، دن میں دو اجلاس ہوتے تھے اور اس میں ایران وعراق کے علماء نے بطور خاص شرکت کی تھی۔ اس موقع پر علّامہ صاحب علماء کو دعوت دینے خود مشرق وسطیٰ تشریف لے گئے تھے لیکن نہ جانے کیوں غیر ممالک کے اخبارات نے یادگار جشنِ مرتضوی کی اس تقریب کو ”ورلڈ شیعہ کانفرنس“ کا نام دے دیا اور ہندوستان کو اس اقدام پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ ترابی صاحب کے منعقدہ کردہ اس اجلاس میں ایران، عراق یا کسی اور مسلم بلاک کے علماء کو اس میں شرکت نہ کرنے دے۔ ترابی صاحب کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان نے مسلم ممالک میں متعین اپنے سفراء کے توسّط سے متعلقہ حکومتوں پر باقاعدہ زور ڈالا کہ وہ پاکستان میں ہونے والی اس کانفرنس میں اپنے علماء کو نہ جانے دیں لیکن ترابی صاحب کے کارنامے پر دہلے ہوئے ہندوستان کی یہ سیاسی چال آخر کار ناکام ثابت ہوئی اور ہمارے تقریباً تمام مسلم ممالک کے مہمانانِ گرامی اس تقریب میں پروگرام کے مطابق شریک ہوئے۔ ترابی صاحب نے اس موقع پر ہاشم رضا صاحب کے توسّط سے اُوچ شریف سے مولا علیؑ کا کتابت کردہ قرآن پاک منگوایا تھا جس پر چوبیس گھنٹے گارڈز متعین رہتے تھے۔ جس ادارے کی جانب سے یہ یاد گار تقریب منعقد کی گئی تھی، ترابی صاحب اس کے جنرل سیکریٹری اور میں جوائنٹ سیکریٹری تھا۔ اس تقریب پر اُس زمانے میں دولاکھ روپے خرچ آئے تھے۔

Scroll to Top