اِس بزم میں رُکتے بھی تو دو چار گھڑی ہم
اِس بزم میں رُکتے بھی تو دو چار گھڑی ہم
جانے کو کہا جاتا ہے، آئے ہیں ابھی ہم
ہم منکرِ تسلیم تھے آغازِ سفر میں
انجامِ غریبی وہی تسلیم، وہی ہم
صحرا کے بگولے کی یہ گردش بھی ہے قانون
اور اِس کو سمجھتے رہے بے راہ روی ہم
ہر شُبہ سے لپٹا ہوا دیکھا کوئی ماضی
دل کہتا ہے اِس راہ سے گزرے ہیںکبھی ہم
ہر جاہ طلب دِین کے سودائی کی خاطر
کب تک درِ تقویٰ پہ کریں شیشہ گری ہم
بجھنے کو ہے یہ شمع، ستاروں پہ نظر ہے
اور کتنے گریزاں تھے سہاروں سے یہی ہم
سب ارض و سماوات ہیں اِک گوشۂ جنّت
یہ وسعتِ فردوس ہے اور اِس میں ہمی ہم
کُھل جائے کہیں راز نہ تنہائیِ غم کا
ہنستے ہیں اِسی خوف سے غیروں کی ہنسی ہم
دل فکرِ خود آگاہ کی منزل ہے ترابیؔ
کہنے کو ہیں مجذوب نہ صُوفی نہ وَلی ہم