اور آواز ڈوب گئی

شاہد نقوی

لفظوں کی رُوح، فکر کا جوہر چلا گیا

تہذیبِ علم و فہم کا محور چلا گیا

اخلاص و اعتماد کا پیکر چلا گیا جانِ

خطاب، زینتِ منبر چلا گیا

لفظ و بیاں کو ناز تھا جس پر چلا گیا

جب مطلعِ شہود پہ اُبھرا وہ ذی شرف

ہم منتشر تھے اور مخالف تھے صف بہ صف

تنظیمِ قوم طنز و ملامت کا تھی ہدف  

آیا تھا ایک بھٹکی ہوئی قوم کی طرف

بھٹکے ہُوؤں کو راہ دِکھاکر چلا گیا

جو مجتہد نہ ہو کے بھی تھا نازِ اجتہاد

دیتے تھے جس کی فکر کو خود مجتہد بھی داد

ناقابلِ شکست تھا جس کا ہر استناد    

رُخصت ہُوا، شعور کو تھا جس پہ اعتماد

ذہنوں کو اعتبار تھا جس پر چلا گیا

ہیں یوں تو اب بھی کتنے خطیبانِ

محترم     لیکن نہ وہ وقار نہ منبر کا وہ بھرم

لہجہ بلند، لفظوں کے انبار، مغز کم   

اب لکنتوں کی ریت کا صحرا ہے اور ہم

ابلاغِ بے کراں کا سمندر چلا گیا

ملّت ہے آج اور جگر سوز مرحلے   

بڑھتے ہی جارہے ہیں حریفوں کے حوصلے

ہے کون جو محاذ پہ آکر جواب دے  

اب قوم زخم کھائے تو آواز دے کسے

تیروں سے جو بچاتا تھا بڑھ کر، چلا گیا

بے شک نہیں ہے کوئی بھی بندہ خدا کی مثل 

    ممکن نہیں اب آئے کوئی انبیاءؑ کی مثل

اِک شخص تھا مگر کرمِ کبریا کی مثل

بندہ وہ جس کا تھا اُسی مشکل کشا کی مثل

لوگوں کو مشکلوں سے بچاکر چلا گیا

جب تک وہ تھا سفر میں ہمارا رفیقِ کار

     اُٹھتی تھی اُس کی سمت ہر اِک چشمِ اعتبار

تھا ہر عمل کا اُس کے تدبر پہ انحصار

      اب وہ نہیں تو ہوتا ہے محسوس باربار

ملّت کا جیسے جسم تو ہے سر چلا گیا

بدلی ہوئی فضا کی ضرورت کے ساتھ

ساتھ تفہیمِ اقتضائے طلاقت کے ساتھ ساتھ

محتاط التزامِ خطابت کے ساتھ ساتھ   

تبدیلیٔ مزاجِ سماعت کے ساتھ ساتھ

ملّت کو فکرِ نو میں رچا کر چلا گیا

خاقانِ علم، نازشِ اُردو، ادیبِ قوم

نبّاضِ وقت، عیسیِٰؑ ملّت، طبیبِ قوم

تقدیرِ بزم، قسمتِ منبر، نصیبِ قوم    

آوازِ دیں، رشید ترابی، خطیب قوم

ذوقِ وفا دلوں میں جگاکر چلا گیا

Scroll to Top