اوجِ منبر
شاداںؔ دہلوی
سرِ منبر جو خطابت کے ہنر کھلتے ہیں
وادیٔ گوش میں سو علم کے در کھلتے ہیں
شبِ تاریک میں آثارِ سحر کھلتے ہیں
طائرِ فکر کے سمٹے ہوئے پَر کھلتے ہیں
شاخِ مرجاں پہ جو ہوتا ہے نشیمن اس کا
ہے ثمر انا فتحنا لک فتحً اس کا
اور علّامہ ترابی بھی تھے ایسے ہی خطیب
اوجِ منبر کا بھرم، رُشد و ہدایت کے نقیب
حُسنِ تقریر میں لفظوں کا قبیلہ بھی نجیب
جیسے پُر نور قصائد میں جمالِ نشیب
سب نے منبر پہ عجب نور چمکتا دیکھا
یعنی الفاظ کا بہتا ہوا دریا دیکھا
تین کم ساٹھ برس اس نے ریاضت کی ہے
منبرِ آلِ پیمبرؐ سے خطابت کی ہے
خود نمائندگیِ روحِ بلاغت کی ہے
اپنے الفاظ میں تشریحِ فصاحت کی ہے
سرد خوں اس نے عزاداروں کا گرمایا ہے
دس ہزار اس کی جو تقریروں کا سرمایہ ہے
دورِ حاضر کے مرثیہ نگار شاعر جناب شاداں دہلوی (کراچی) نے ترابی صدی کے موقع پر بہ شکل مسدّس ۳۵ بند پر مشتمل یہ نظم لکھی۔
جس کے یہ ۷ بند انتخاب کے طو رپر شائع کیے جارہے ہیں:
وہ مدبّر و مفکّر وہ مقرّر وہ خطیب
وہ صحافی وہ قلمکار وہ شاعر وہ ادیب
جس کا اسلوبِ خطابت اثر انگیز و عجیب
بعد مدّت کے یہ نعمت ہوئی منبر کو نصیب
بعد مدّت کے کوئی بولنے والا دیکھا
بعد مدّت کے یہ منبر پہ اُجالا دیکھا
ایسا اِک جوہرِ قابل کوئی شاعر نہ خطیب
ایسے اوصاف کا حامل کوئی شاعر نہ خطیب
دور تک مدِّ مقابل کوئی شاعر نہ خطیب
دور تک مِثل و مماثل کوئی شاعر نہ خطیب
سفرۂ علم تک البتہ رسائی تو رہی
خوشہ چینی تو رہی زلہ ربائی تو رہی
اس سے منسوب ہوئی فرشِ عزا کی تہذیب
اس نے معیارِ سماعت کو دیا ہے ترتیب
آج بھی ہے وہ درِ آلِ محمدؐ کے قریب
ایسا ہوتا ہے مقدّر اسے کہتے ہیں نصیب
خوفِ محشر میں نہ اندیشۂ انجام میں ہے
صحنِ سجّادیہ میں منزلِ آرام میں ہے
یہ جو علّامہ ترابی نے فضیلت پائی
ذکرِ آقا کے تصدق میں یہ عزّت پائی
زورِ گویائی ملا، علم کی دولت پائی
اپنے ممدوح کے قدموں میں ہی تربت پائی
وہ ترابی ہے تو آسودہ اُسی خاک میں ہے
بزمِ لطف و کرمِ پنجتنِ پاکؑ میں ہے