اندھیرا خوب ہے اس سے کہ روشنی ہوجائے
اندھیرا خوب ہے اس سے کہ روشنی ہوجائے
یہی ہے عشق کہ انکارِ بندگی ہوجائے
اُنہی کو کہتی ہے دنیا خدا نُما بندے
یہی ہے عقل کہ جو دل کہے وہی ہوجائے
جو گہری سانس کھنچے شرحِ صدر کرتی ہے
مُدائومت جو رہے ہر خفی جلی ہوجائے
ہر ایک صاحبِ خنجر یہاں خلیلؑ نہیں
پیامِ دوست سے جب تک نہ آگہی ہوجائے
کچھ ایسے پھول چُنیں آپ جو فسردہ نہ ہوں
یہ نذرِ دوست ہے، ایسا نہ ہو ہنسی ہوجائے
فنا نصیب سحر ہے اُس آہ پَر نازاں
جو آہ دل سے کھنچے اور سَرمدی ہوجائے
حضور و غیب کا ہُوا اِتّصال قابلِ فہم
نگاہ و دل میں اگر صلح و آشتی ہوجائے
رشیدؔ شمع کے بجھتے ہی یہ بھی ممکن ہے
بہت قریب جو آیا تھا اجنبی ہوجائے