امرِ باطل میں ہے مطلوب تتبّع ہم سے

امرِ باطل میں ہے مطلوب تتبّع ہم سے
کیوں نہ اِس بات پہ چھڑ جائے تنازع ہم سے

تیری گردش میں رہے، پِس بھی گئے، خاک ہوئے
اے فلک اور بھی ممکن ہے تواضع ہم سے

شاید اُس بُت کو دیا اُس کے رفیقوں نے فریب
ورنہ اُس کا یہ تضرّع یہ تخشّع ہم سے
نالہ کرتے ہوئے تھک جائیں تو آہیں کھینچیں
بس یہاں تک رہے اُمیدِ تنوّع ہم سے

یادِ حق، خوفِ اجل، ذِکرِ بتاں، فِکرِ معاش
مختصر وقت میں کیا کیا ہے توقّع ہم سے

ساتھ چلتے ہیں کسی کے تو بدلتے نہیں راہ
کتنا مانوس ہے یہ رنگِ تشیُّع ہم سے

فرض کیا ہے یہ زباں دل کی گنہگار رہے
کیوں کیا جائے تقاضائے تصنّع ہم سے

دُور ہے حق سے کوئی، کوئی ہے نزدیک رشیدؔ
کون پوچھے یہ تنزّل یہ ترفّع ہم سے

Scroll to Top