اسمِ عظیم
کہتا ہے ہر دم قلبِ سلیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صرف آغاز نہیں ہے اُس کا نام
ہر انجام ہے وہ اسمِ عظیم
نام سے اُس کے خِلقت کا قیام
خَلق کو جس نے دیا دینِ قویم
عاجز کیا سمجھے آنِ قدیر
حادث کیا جانے شانِ قدیم
ہم ہیں مرکّب اور وہ ہے صمد
ہم جاہل، ذات اُس کی ہے علیم
پائے کہیں اُس کو نہ فکرِ بشر
آئے نہ ادراک میں جس کا حریم
دیکھ کے خاموش رہے وہ غفور
جان کے انجان بنے وہ کریم
ذکر نہیں کرتا ہے کوئی شقی
شکر نہیں کرتا ہے کوئی لئیم
اُس کا نہیں کوئی عدیل و نظیر
اُس کا نہیں کوئی شریک و سہیم
لامحدود، حدوں میں کیا سمائے
ماہیّت میں کیوں آئے قدیم
فہم کا کیا حق پہنچے جو وہاں
عقل میں کیا آئے علیٌ حکیم
جس کا غضب بُعد عن الحق ہو
نعمت جس کی صراطِ مستقیم
منکرِ سجدہ، اب تک ہے وہ حُکم
دُور بھی ہو اِنّکَ اَنتَ الرّجیم
اپنے گناہوں پہ ہے اب بھی مُصر
منکرِ صانع جو ہے فکرِ ذمیم
حد میں کیسے آئے وہ کلام
الکن بن جائیں جس جا کلیم
حاسد جَل جَل کر مٹی بنیں
جس کو چاہے دے ملکِ عظیم
آیا ہدایت کے لیے وہ نبیؐ
مومن کے لیے جو رؤف الرحیم
نورِ خدا جس کا ہے یاسین نام
جس کی سند والقرآن الحکیم
رازِ جہاں، نون و قلم قاف صاد
رمزِ جہاں، سرِّ الف لام میم
کلمہ اُس کا ہے وردِ زباں
جس کا دامن فردوسِ نعیم
نار و جناں سے نہ کیوں ہو اختلاج
بغض و محبّت ہے جہاں خود قسیم
خُلق سے جس کے دلِ مومن قوی
کفر کا سَر ضَرب سے جس کی دو نیم
بَدر و اُحد، خیبر و خندق میں ہے
نفس کا اُس کے وہ جلالِ عظیم