اسلام میں اجتہاد
علّامہ رشید ترابی
یہ مقالہ جنوری ۱۹۵۸ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی اسلامی سیمینار میں علّامہ رشید ترابی نے پڑھا تھا۔ اس سیمینار کا انعقاد مشترکہ طور پر حکومت پاکستان اور پنجاب یونیورسٹی نے کیا تھا۔
یہ اپنی نوعیت کا دوسرا عالمی سیمینا ر تھا۔ اس سے قبل، اسی طرح کا سیمینار ریاست ہائے متحدہ امریکا میں لائبریری آف Congress اور پرنسٹن یونیورسٹی کی سرپرستی میں ۱۹۵۳ء میں منعقد ہوا تھا۔ اس دوسرے بین الاقوامی سیمینار میں دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے عالموں سمیت متعددا کا برین نے شرکت کی۔ اس سیمینار میں ۴۰ ممالک کے ۸۹ دانشوروں نے تقریریں کیں اور نو مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔
اس سیمینار میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ مذہبی دانشوروں میں صرف دو شخصیات کو اپنے خیالات پیش کرنے اور مقالے پڑھنے کی دعوت دی گئی، ایک علّامہ رشید ترابی اور دوسرے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی۔
مگر یہ بھی واضح رہے کہ حکمِ عقل میں مفروضہ اجماع کی طرح ہے۔ اس لیے کہ کوئی ایسا حکمِ عقلی جس پر اجماع عقلا ہو اور شریعت اس پر خاموش ہو پایا نہیں جاتا مقصود یہی ہے کہ عقل و شرح ایک دوسرے سے منفک نہیں۔ احکام شرح جس قدر ہیں، احکامِ عقلی اور مفادِ خلائق پرمبنی ہیں۔ اگر چہ عقل بشر کی اس حقیقت تک رسائی نہ ہو اور کلما حکم به العقل حکم بہ الشرح کا مقصد یہی ہے۔ اگر سارے عقلاً کا اتفاق ہو تو شان ربوبیت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس پر اجرائے حکم کر دے۔
الواجبات الشرعيه الطاف في الواجبات العقليه
عالمِ اسلام میں سب مکاتیبِ فقہی اس کے مدعی ہیں کہ اجتمادِ منی برنص ہے۔ یعنی نص اُس زمانے میں بھی ضروریاتِ بشر کی کفیل تھی اور آج بھی ہے۔ بشرط یہ کہ اُس کو ڈھونڈیں، اور سمجھیں۔ اس کا ڈھونڈ نامنحصر ہے، اس علم کے قواعد پر، علومِ لغوی جیسے تفسیر ، رجال، حدیث وغیرہ۔ اجتہاد کی یہ تعریف نئی نہیں کہ ادلّۂ تفصیلیہ سے استنباطِ احکام ہو۔ بذل الوسع في استنباط الاحكام عن ادلة التفصیلیہ اور اجتہاد کی یہی اصل ثابت مذہب کو زندہ اور باقی رکھے گی۔
(۱) اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِ۲۴ۙ تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا۰ۭ (سورۂ ابراہیم، آیات ۲۴،۲۵)
جہاں جہاں افکارِ اسلام میں خامی پائی جاتی ہے، اس کا باعث تین امر ہیں۔
(۱) قواعد و ضوابطِ استنباط سے عدم واقفیت کے باوجود اجتہاد
(۲) اجتہاد مقابل نص
( ۳ ) جمود على النص
ان تینوں خطرات سے متقدمین نے آگاہ کر دیا تھا۔ چنانچہ عبدالکریم شہرستانی نے ”ملل و نحل“ میں اجتہاد مقابل نص کو اسلام میں اختلافات کی بنا قراردیا ہےاور قرآن واضح کرتا ہے۔
(۲) اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۰ۭ (سورۂ آل عمران، آیت ۱۹)
بَغْيًۢا بَيْنَھُمْکی وسعتوں میں تاریخی اختلاف مذاہب میں پنہاں ہے۔
جمود علی النص اجتہاد مقابل نص سے زیادہ خطر ناک نہیں تو اس سے کچھ کم بھی نہیں۔ اور قواعد وضوابطِ استنباط سے عدم واقفیت وہ مصیبت ہے جس کی وجہ سے عالمِ اسلام ابتلا میں ہے۔ اسلام دینِ اجتہاد ہے اور اس معنی میں کہ اجتہاد مبنی علی النص بہ شرطِ تقویٰ ہو نہ اجتہاد مقابل نص نہ جمع علی انص۔ مصالح ذاتی و وقتی کی بنا پر احکام کو بدلنا اجتہاد اسلامی نہیں ہے۔ اسلام میں اجتہاد عقلِ منضبط اور مصلح کے ذریعے نصوص کو ڈھونڈتا اور سمجھتا ہے اور یہ حق کسی فرقہ یا جماعت کا نہیں ہے۔ جس میں یہ صلاحیتیں پیدا ہو جا ئیں وہ آگے آئے اور غیر مجتہد پر فرض ہے کہ وہ اپنے مجتہد کے فتاویٰ پر عمل کرے اور اپنی حیاتِ سیاسی و اجتماعی و اقتصادی دور وحی کو ان ہی فتاوی کی روشنی میں بہتر بنائے۔
بعد نصِ معصوم دروازۂ اجتہاد با شرائطِ استنباط سب کے لیے کھلا ہوا ہے۔ مجتہد کا قول دوسرے زمانے میں مقلّدین کے لیے حجت نہیں اور نہ مردہ مجتہدین کی تقلید کی ضرورت ہے۔ اسی ایک اصل اجتہاد سے تسلسل و ارتقاء وارتباطِ فکر وابستہ ہے۔ آج کے مجتہدین جو واجد شرائطِ اجتہاد ہیں، متقدمین سے کچھ کم نہیں ۔ لیکن مجتہد کا قول جزوِ دین نہیں ہے۔ نص جزوِ دین ہے۔ اس لیے کہ ہر مجتہد کا استنباط جدا ہے۔ اگر ہر ایسے اجتہاد کو عین دین سمجھا جائے تو حیرانی ظاہر ہے، آج جب کہ جمود و خمود لاقیدی و پستی کے اسباب پر غور و فکر کے لیے دانشمندانِ اسلام و مفکرینِ عالم جمع ہیں۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلام دینِ عدل و انصاف ہے جہاں قرآن وحدیث کی موجودگی میں نشو و نمائے حیات سیاسی و اجتماعی، فردی و روحی کے لیے نصوص کی کمی نہیں۔ صرف یہ ہے کہ جمود علی النص نہ ہو، ہماری داخلی و خارجی زندگی۔ ہماری قومی اور بین الاقوامی زندگی، بحیثیت مسلمان کے دو تقاضے کرتی ہے۔ اور یہ دو نص قطعی آپ کے پاس موجود ہیں۔
(۳) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔
ترجمہ:”صاحبان ایمان اللہ کے لیے قائم رہو۔ عدل پر شہید بنو اور کسی قوم کی دشمنی کہیں تم کو عدل سے نہ ہٹا دے۔ عدل کرو یہی تقویٰ ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ “(سورۂ مائده، آیت ۸)
(۴) وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۰ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۔(سورۂ انفال، آیت _۶۰)” اور جس قدر تم کر سکتے ہو اس تیاری کے ساتھ رہوتا کہ اللہ کے اور تمہارے دشمن خوف زدہ رہیں۔“ اگر ما استطعتم من قوةٍ کا یہ حکم واجب ہے تو پھر مقدمہ واجب کہاں ہے؟ جمود علیٰ النص کیوں ہے؟
عالمِ اسلام کی داخلی اور خارجی زندگی کے لیے مثالاً یہ دو نصوصِ قطعی پیش کیے گئے ہماری ترقی و کمال کے لیے صرف نصوص کو ڈھونڈ نے اور سمجھ کر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دین مکمل ہے اور ہمیں گداگری کی ضرورت نہیں ہے۔
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنیٔ دانشِ افرنگ
که بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طائوس فقط رنگ
(اقبالؔ)