ارمان نکلتے دِل پُر فن کے برابر
ارمان نکلتے دِل پُر فن کے برابر
ویرانہ جو ہوتا کوئی گلشن کے برابر
کیوں اہلِ نظر ایک ہے دونوں کی طبیعت
سُنبل نے جگہ پائی جو سَوسن کے برابر
میں دام پہ گِرتا نہیں اے ذوقِ اسیری
ہاں کوئی قفس لائے نشیمن کے برابر
میں بھول نہ جائوں کہیں انجامِ تمنّا
بجلی بھی چمکتی رہے خرمن کے برابر
کیا لطف اندھیرے کا، اُجالے میں تو آئو
پھر داغ نظر آئیں گے دامن کے برابر
اُتنی تو محبّت ہو کہ جتنی ہے عداوت
میزان میں ہر دوست ہو دشمن کے برابر
لازم ہے اندھیرے کا اُجالا وہ کہیں ہو
تاریک ہے اِک رُخ مہِ روشن کے برابر
بس طُور جلا اور اِدھر غش ہوئے موسیٰؑ
لوگ اور بھی تھے وادیِٔ ایمن کے برابر
اب جائے جہاں قافلۂ دہر ترابیؔ
رہبر نظر آتا رہے رہزن کے برابر