اجنبی اشیاء میں باہم جذب کی خواہش نہیں
اجنبی اشیاء میں باہم جذب کی خواہش نہیں
کُفر و ایماں خود ہیں خالص، اِن میں آمیزش نہیں
سرسری دیکھا جہاں کو، اِس نظر سے کیا ملا
بات کی تہ تک وہ کیا پہنچے جسے کاوش نہیں
کون سا سرمایہ آخر ہے محلِّ اعتبار
عِلم کی تنہا عقیدے سے تو پیمائش نہیں
دیکھنا یہ ہے حدیں کیا ہیں، مُزاحم کون ہے
کیا خطا خورشید کی ذرّوں میں جو تابش نہیں
جارہا ہوں سُوئے منزل پُریقین و بے خطر
ہاتھ میں ہے کوئی دامن، پائوں میں لغزش نہیں
اب وہ دنیا ہو کہ عقبیٰ اِک سہارا چاہیے
بے وسیلہ زندگی میں کوئی آسائش نہیں
اِک سکونِ مستقل ہے یا مکّمل بے حسی
زلزلے آئے یہاں اور قلب میں لرزش نہیں
ہے وہ دیوانے کی جنّت یا کسی گونگے کا خواب
دین کے ہمراہ دنیا میں اگر دَانش نہیں
اِک چُھپی خواہش کے ایماء پر ہے تکرارِ نظر
عشق کیا ہے دیدہ و دل میں جو اِک سازش نہیں
اختلافِ علم و استنباط، لازم ہے رشیدؔ
فکر کی راہیں الگ ہیں اور کوئی رنجش نہیں