آپ کھائیں قسم زمانے کی
آپ کھائیں قسم زمانے کی
ہو یہ سرخی مِرے فسانے کی
زندگی کی بہار لے کے گئی
ہائے وہ شام آشیانے کی
دے کے دل ہوشِ بندگی بھی دیا
انتہا ہے یہ آزمانے کی
پھول کوئی سہی کہیں بھی کھلے
خاک ہے اُن کے آستانے کی
صبح ہونے کو ہے کہو تارو
کچھ خبر آئی اُن کے آنے کی
کچھ اندھیرا ہے کچھ اُجالا ہے
یہ ہے تصویر ہر فسانے کی
دیکھتے دیکھتے یہ رات گئی
داستاں رہ گئی سُنانے کی
اپنا جانا رُکا ہوا ہے رشیدؔ
دیر ہے صرف اُن کے آنے کی