علّامہ رشید ترابی کا مختصر سوانحی خاکہ

علّامہ رشید ترابی ۲؍ جولائی ۱۹۰۸ء کو حیدر آباد دکن میں پیداہوئے۔ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۳ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔ امام بارگاہ سجادیہ کے احاطے میں مدفون ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

        اُن کے اساتذہ میں ممتاز جیدین شامل تھے۔ جن میں ابوبکر شہاب الدین عریضی، خلیفہ عبدالحکیم، مرزا ہادی رسوا، مولانا سیّد سبطِ حسن، ڈاکٹر لطیف احمد خان اور آغامرزا مہدی پویا قابلِ ذکر ہیں۔

        اُن کی عملی زندگی کا آغاز بہادر یار جنگ کی ہمراہی میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ہوا۔ اسی سلسلے میں مولاناابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی اور بہادر یار جنگ کے دوش بدوش میلاد النبیؐ کے جلسوں میں اُن کی خطابت کے جوہر سامنے آئے۔

        بعد ازاں قائداعظم نے اُنھیں آل انڈیا اسٹیٹ مسلم لیگ کا سیکریٹری اطلاعات بنایا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اُنھوں نے عملی سیاست کو ترک کردیا۔ مجالس و محافلِ سیرت کے ذریعے فکری سطح پر اتحاد ملّت کے لیے سرگرمی سے پابند ہوگئے۔ وہ ایک طرز کے خطیب تھے۔ مشرق و مغرب کے اکتسابی امتزاج سے اُن کی فکری رسائی میں بڑی وسعت رُو پزیر تھی۔

        قرآن سے استنباط، حدیث کے اثر و نفوذ ، تاریخ کے نشیب و فراز، علم انساب کے پیچیدہ مراحل اور فقہی مسائل پر بڑی نکتہ رس دسترس تھی۔ اس سلسلے میں ہر سال ایران اور عراق جاتے رہے۔ جہاں اُنھوں نے آیت اللہ العظمیٰ آقائی سیّد حسن بروجردی، آیت اللہ العظمیٰ محسن الحکیم طباطبائی، صدر حوزۂ علمیہ نجف ِ اشرف، آیت اللہ محسن تہرانی (آقائی بزرگ تہرانی)، آیت اللہ العظمیٰ آقائے ابوالقاسم خوئی، آیت اللہ ہیبت الدین شہرستانی، آیت اللہ سیّد ہادی المیلانی، آیت اللہ شریعیت مدار، آیت اللہ محمد شیرازی (مشہد)، آیت اللہ شہاب الدین مرعشی نجفی سے براہِ راست استفادہ کیا۔ احادیث اور روایتوں کے سلسلے میں یہ تمام آیت اللہ حضرات اُن کے مشائخِ اجازہ بھی ہیں۔

        محرّم الحرام موضوعات کے تحت عشرہ ہائے مجالس سے خطاب کرتے تھے۔ قرآن، حضرت ختمی المرتبت اور نہج البلاغہ اُن کی فکر کے مرکز تھے۔ رمضان المبارک میں کسی ایک سورے پر تفسیر کی ابتداء ۱۹۵۵ء میں مسقط (عمان) سے ہوئی۔ پھر تفسیر کا یہ سلسلہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۵ء تک کراچی کے بڑے امام باڑے میں ہوتا رہا۔ بعد میں صحت کی خرابی کے باعث ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۲ء تک یہ فریضہ اپنے مکان پر انجام دیتے رہے۔

        ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن پر وہ ”مجلسِ شامِ غریباں“ کے بانی تھے۔ پاکستان میں اُنھوں نے اپنی پچیس (۲۵) سالہ زندگی میں پانچ (۵) ہزار سے زیادہ تقریریں کیں اور اب تک اُن کی تقریباً دو ہزار تقریریں آن لائن دستیاب ہیں۔ اُن کی وفات کے بعد بعض ناشرین نے اُن کی تقاریر کو ”مجالسِ ترابی“ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ ”شاخِ مرجان“ اُن کے شعری کلام کا مجموعہ ہے۔ وہ اپنی شاعرانہ کاوش کو منظوم تقریر کہتے تھے۔ ”انتصارِ مظلوم“ اُن کی فکر کے لیے نکتہ پرکار تھا۔

اُن کی تقاریر کے چند مندرجہ ذیل موضوعات خواص و عوام میں آج بھی مقبول ہیں۔

تقاریر کے لیے وہ برصغیر کے مرکزی شہروں کے علاوہ عرب امارات، ایران، عراق، برما، جنوبی افریقہ اور برطانیہ وغیرہ جاتے رہے۔

علّامہ رشید ترابی کی نظم ”اسمِ عظیم“ سے چند شعر پیش کیے جاتے ہیں۔

اسمِ عظیم

اسمِ عظیم

علّامہ رشید ترابی کی نظم ”اسمِ عظیم“ س چند شعر پیش کیے جاتے ہیں۔
کہتا ہے ہر دم قلبِ سلی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صرف آغاز نہیں ہے اس کا نام
ہر انجام ہے وہ اسمِ عظیم
نورِ خدا جس کا ہے یاسین نام
جس کی سند و القرآن الحکیم
بَدر و اُحد خیبر و خندق میں ہے
نفس کا اُس کے وہ جلالِ عظیم
اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
Scroll to Top